نقطہ نظر

کیا ہماری 'دیسی' روایات قابلِ فخر نہیں رہیں؟

ترقی کی دوڑ میں ہمیں اپنے دیسی حکمت اور روایات کو نہیں بھولنا چاہیے بلکہ ان ہی میں نئے معانی ڈال کر اپنانا چاہیے۔

ہمیں اسکول میں پڑھایا جاتا تھا کہ ’اصلی‘ کا متضاد یا الٹ ’دیسی‘ ہے۔ یہاں سے دیسی کے ساتھ ہماری نفرت شروع ہو گئی۔ ہر وہ چیز جو ہمیں گھٹیا لگی ہم نے اسے دیسی ہی کہا۔ اسی طرح ہر غیر چیز ہمیں اصلی لگنے لگی۔ اس سے جڑی ہوئی کہاوت "گھر کی مرغی دال برابر" ہے۔ ہماری زبان توروالی میں اس کہاوت کا متبادل کچھ بہت ہی شرمناک ہے، جسے شاید کسی دانا نے ’دیسی‘ یا ’مقامی‘ کی بے توقیری برداشت نہ کرتے ہوئے بڑے غصّے سے کہا ہے۔

اصلی کا الٹ دیسی کیونکر پڑا؟ یہ بظاہر ایک معمولی سی بات لگتی ہے لیکن انسانی فکر کی نمو میں یہی معمولی باتیں اپنے اندر خاص پس منظر رکھتی ہیں۔ زبانوں کی تشکیل اور ترویج میں کئی کلتوری، فطری اور اساطیری کہانیاں پنہاں ہوتی ہیں۔ لفظ کے معانی سے مجموعی انسانی سوچ کے دائرے آشکار ہوتے ہیں۔ کئی الفاظ اپنے پس منظر میں انسانی افتراع یا قیاس پر مبنی افکار لیے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جملہ ’طوفان آتا ہے' یا یہ جملہ ’ہوا چلتی ہے‘ پر غور کیجیے۔ افعال "آنا" اور "چلنا" ہر اس شے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جن کے پاؤں ہوں اور وہ ذی روح ہوں۔

اس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ قدیم زمانے میں انسان ’طوفان‘ یا 'ہوا' کو کوئی دیوی یا دیوتا سمجھتا تھا۔ ویسے بھی قدیم انسان جب بھی کسی قدرتی مظہر کو نہیں جانچ سکا یا پھر اس کا سائنسی تجزیہ نہیں کر سکا تو اس نے اپنے قیاس پر مبنی اس قدرتی مظہر کی توجیہہ کی۔ مثلاً یہ خیال لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی راسخ ہے کہ سایہ دار درخت کے نیچے نہیں سونا چاہیے، کیونکہ ایسے درخت پر جنات و عفریت ہوتے ہیں، جو انسان پر بیٹھ کر اس کا سانس بند کردیتے ہیں۔

یہ انسان کی اپنی اس وقت کی بساط کے مطابق اس قدرتی مظہر کی تشریح تھی۔ اب سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ درخت رات کو سانس لیتے ہیں، اور سانس لینے کے اس عمل میں زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ چنانچہ درخت کے نیچے رات کو آکسیجن کم پڑ جاتی ہے، جس سے سوتے ہوئے انسان کی سانس پھول جاتی ہے اور اس کا جسم سن جاتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ترقی کرتا گیا لیکن ’ترقی‘ کی یہ رفتار ہر جگہ یکساں نہیں رہی۔ پہلے جن انسانوں کے پاس جسمانی طاقت زیادہ ہوتی، وہی ’ترقی‘ کر جاتے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا میں دستیاب وسائل سے زیادہ مستفید ہوتے۔ وسائل پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے قبیلوں اور قوموں کے بیچ جنگوں نے جنم لیا، اور یہیں سے سیاست اور ریاست پیدا ہوئیں۔

وسائل سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی اس جستجو نے جنگوں کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار، رویّوں، اور افکار کو بھی متاثر کیا۔ یہیں سے 'کلچر' نے 'تہذیب' کی شکل اختیار کی اور یوں 'مہذب' اور 'غیر مہذب' کی تفریق پیدا ہوگئی۔

وسائل پر قبضے کی یہ کوشش ہر دور میں کسی نہ کسی صورت جاری رہی ہے۔ کہیں یہ نو آبادیاتی رہی تو کہیں تقدیس کے پردے میں لپٹی ہوئی تہذیبوں کے تصادم میں پنہاں۔ کہیں یہ 'نئی دنیا کی ترکیب' یعنی نیو ورلڈ آرڈر میں پوشیدہ رہی، تو کہیں اشتراکیت (کمیونزم) اور سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹل ازم) کی باہمی کشمکش میں ظاہر ہوئی۔ کہیں اس کی صورت علاقائی رہی تو کہیں قومی اور عالمگیر۔ اس کی کئی صورتیں رہیں لیکن اپنے نصب العین میں یہ ہمیشہ ہی ’طاقت‘ کے حصول میں مگن رہی۔ موجودہ دنیا میں دہشت گردی ہو یا اس کے خلاف جنگیں سبھی "طاقت" کے حصول کے لیے ہیں تاکہ وسائل پر زیادہ سے زیادہ قبضہ کیا جائے۔ بدقسمتی یہ کہ یہ جاری رہیں گی۔

ایسے میں وہ قومیں یا قومیتیں زیادہ گھاٹے میں رہی ہیں کہ جن کے پاس سیاسی طاقت نہ رہی ہو اور وہ تاریخ میں کسی کی محکوم رہی ہوں۔ محکوم قومیں ہمیشہ حاکم قوموں کے کلچر، روایات، اور افکار کو اپناتی ہیں، اس لیے آج ہم جیسے بہت سوں کو دیسی اور مقامی سے چڑ ہے اور ہم ان دیسی افکار، روایات، یا چیزوں کو ایک لحاظ سے جعلی سمجھنے لگے ہیں۔ اس کے پیچھے ہماری انسانی تاریخ ہے۔

حاکم قوموں یا قومیتوں کے افکار و خیالات کو محکوموں پر ٹھونسنے کے لیے جنگوں کے ساتھ ساتھ بڑے دلکش الفاظ و نظریات، جیسے کہ تہذیب، مذہب، تقدیس، اشرافیت، خاندانیت، توقیر، اور ترقی کا سہارا بھی لیا گیا اور ہر زمانے میں خوب لیا گیا ہے۔

اس مقابلے نے ادب، فنون، زبان اور روایات سب کو متاثر کیا۔ طاقتور کی زبان، ادب، فنون، اور روایات کو سیکھنا ’تعلیم‘ گردانا گیا۔ دیسی مرئی چیزوں کے ساتھ ساتھ ادب، فنون، حکمت، اور زبانوں کی بے توقیری ہونے لگی اور ان کو پسماندگی، جہالت، اور جعلیت کا ذریعہ سمجھا گیا۔

اس کا اثر یہ ہوا کہ دیسی حکمت کے خزینے دفن ہوتے گئے اور ان خزینوں کے سرچشمے بے توقیر۔ مثلاً میرے لیے توروالی کلاسک شاعروں خان گل خان، جمروز ملنگ، یا پھر امیر محمد کے کسی ایسے شعر کی کوئی اہمیت نہ رہی جو بلاشبہ غالب، میر، یا خوشحال خان کے اشعار کے پائے کا ہو۔

اسی طرح میرے پختون ہمسائے کے نزدیک رحمان بابا، غنی خان، یا رحمت شاہ سائل کے اشعار کی وہ وقعت نہ رہی جو غالب، اقبال، یا فیض کے کلام کی ہو۔ یہ سلسلہ یہاں نہیں رکتا، بلکہ آگے جاتا رہتا ہے جہاں تک طاقت کی مختلف درجے موجود ہیں۔

دنیا میں مروجہ تعلیم اس فکر کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور ہمارے ملک میں یہ کردار مزید گھمبیر ہوجاتا ہے۔ تعلیمی پالسی ساز چونکہ اپنی سطح پر ایسی ہی تعلیم کی پیداوار ہیں، لہٰذا وہ اس طلسم کو توڑنے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ وہ وہی لاگو کرتے ہیں جو انہیں سکھایا گیا ہو۔ نتیجتاً ہماری قومی سوچ میں ’یکسانیت‘ کو ’یکجہتی و اتحاد' سجھا جاتا ہے اور ’تکثیریت' یعنی Pluralism کو غداری۔

بیرونی افکار، نظریات اور روایات کی یہ نقل ہمارے اندر کی تخلیقیت کو مار دیتی ہے اور ہم صرف اسے تعلیم گردانے لگتے ہیں جو ہمیں انگریزی یا اردو میں کہا اور پڑھایا جائے۔ اس طرح ہم اچھے نقال تو بن جاتے ہیں لیکن تخلیق کار نہیں۔ یہ نقالی ہم مقامی سطح پر اپنے چور رویوں کا تڑکا دے کر جعلی کر دیتے ہیں اور اس جعلی کو پھر دیسی کے معانی پہناتے ہیں۔

ہمیں اپنے کلتور اور روایات کو ایک وسیع دنیا کے تناظر میں سمجھنا چاہیے اور پھر ان ہی کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنا چاہیے۔ اس دور میں ہم سائنس اور علم میں جدت اور تیزی سے انکار نہیں کرسکتے اور کرنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب تاریخ کے پہیّے کو الٹا گھمانا ہے۔ مگر ترقی کی اس چندھیا دینے والی روشنی میں ہمیں اپنے دیسی حکمت اور روایات کو نہیں بھولنا چاہیے بلکہ ان ہی میں نئے معانی ڈال کر اپنانا چاہیے۔ اسی سے ہم ایک اصلی قوم بن سکیں گے۔

زبیر توروالی

زبیر توروالی انسانی حقوق کے کارکن اور ریسرچر ہیں۔ وہ ادارہ برائے تعلیم و ترقی سوات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ztorwali@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔