کوئی کام نہیں تو بی ایڈ کر لیں
کچھ عرصہ قبل میں ابو ظہبی میں بینک کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان واپس آ گیا۔ فراغت کا بہت سا وقت میسر تھا، تو سوچا کہ کسی کالج میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر کچھ عرصہ پڑھا لیتا ہوں۔ لہٰذا دو تین نجی کالجوں اور ایک قریبی ایجوکیشن یونیورسٹی میں بھی سی وی جمع کروا دی۔ نجی کالج سے تو فوراً پڑھانے کی آفر آ گئی، لیکن میں شروع سے ہی سرکاری اداروں کے طلباء کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہوں تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی کریئر کونسلنگ بھی کر سکوں۔
کریئر کونسلنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ بے شمار طلباء مناسب گائیڈنس نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ طلباء جن کے والدین کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، وہ اپنے خاندان اور اپنے ارد گرد سے کوئی خاص معلومات لینے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور یوں بہت سے طلباء آگے نہیں بڑھ پاتے اور کئی بار غلط مضامین کا انتخاب بھی ان کے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔
تو جب ایجوکیشن یونیورسٹی سے کسی قسم کا کوئی رسپانس نہ آیا تو میں نے خود پرنسپل صاحب سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے ان کے ذاتی اسسٹنٹ نے دو تین دن تو ملنے کے لیے وقت ہی نہیں دیا کہ صاحب آج کل بہت مصروف ہیں۔ لیکن آخر میری جستجو کو دیکھتے ہوئے اسسٹنٹ صاحب کو بھی ہم پر رحم آگیا اور اس نے کسی طرح پرنسپل صاحب سے ملاقات کے لیے ٹائم لے دیا۔ پرنسپل صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو بجائے اس کے کہ وہ مجھے بیٹھنے کا کہتے، فوراً پوچھا کہ آپ کی ایجوکیشن کیا ہے۔
پڑھیے: اساتذہ کا عالمی دن اور پاکستان کی صورت حال
ہم نے بڑے فخر سے بتایا کہ جناب میں نے قائدِ اعظم یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا ہوا ہے، تو انہوں نے بہت عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا جیسے میں نے ماسٹرز نہیں بلکہ میٹرک کہا ہو۔ فوراً میری سی وی بغیر پڑھے میرے ہاتھ میں تھما دی اور کہا: "میاں ہمارے پاس اس سیٹ کے لیے باہر سے تعلیم یافتہ ایم فِل درخواست گزار موجود ہیں اور اس کلاس کو پہلے ایک کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی پروفیسر پڑھا رہے تھے، اور ہماری پہلی ترجیح پی ایچ ڈی یا کم از کم ایم فل ہے، لہٰذا میں معذرت خواہ ہوں آپ اب جا سکتے ہیں۔
میں نے ہار مانے بغیر انہیں طلباء کی کریئر کونسلنگ کے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تو چار و ناچار انہوں نے اگلے دن آزمائشی کلاس کے لیے بلایا، اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ کوئی امید مت رکھنا کیونکہ یہاں سب میرٹ پر ہی ہوتا ہے۔
گھر واپس آ کر ساری رات آزمائش کے لیے لیکچر تیار کیا۔ دل میں خوف بھی تھا کہ پی ایچ ڈی اساتذہ سے پڑھنے والی کلاس بہت ذہین فطین ہوگی اور مجھے بہت سے مشکل سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ کلاس میں داخل ہوا اور کمپیوٹر سائنس پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ دس منٹ گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ جو کچھ میں پڑھا رہا تھا وہ ان طلباء کے سر سے گزر رہا تھا۔ بیشتر طلباء سو چکے تھے، اور باقی ماندہ میری موجودگی سے بے خبر آپس میں محوِ گفتگو تھے۔
میں نے لیکچر بند کیا اور ان سے گفتگو شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہ بی ایڈ کی کلاس ہے جس میں کمپیوٹر سائنس ایک تعارفی کورس ہے، اور اس تعارفی کورس کو پڑھانے کے لیے پی ایچ ڈی ٹیچر کا انتخاب سمجھ سے بالاتر تھا کیونکہ جو مواد اس کورس میں تھا اسے پڑھانے کے لیے تو کسی بھی پرائیویٹ ادارے کا میٹرک پاس شخص بھی کافی تھا۔
مزید پڑھیے: ہم اساتذہ کی عزت کب کریں گے؟
طلباء کے چہرے اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ وہ یہ سب پہلی بار سن رہے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے کتاب بند کر دی اور ان سے ایک انتہائی احمقانہ سا سوال کیا کہ کتنے طلباء ایسے ہیں جنہوں نے آج سے پہلے کبھی کمپیوٹر کو کھول کر بھی نہیں دیکھا، تو آدھی کلاس نے ہاتھ فضا میں بلند کر دیے اور اس کے ساتھ میرا سر شرم سے جھک گیا کہ یہ بی ایڈ کے سٹوڈنٹ جن کو ایک پی ایچ ڈی ٹیچر پڑھاتا ہے اور ان کے پرنسپل ان کے لیے ایک اور باہر سے تعلیم یافتہ استاد ڈھونڈھتے پھر رہے ہیں، جہاں لاکھوں روپے سے بننے والی جدید ترین کمپیوٹر لیب موجود ہے، وہاں ان طلباء میں سے ایک بہت بڑی تعداد کمپیوٹر کو استعمال تک نہیں کر سکتی، اس کا ماؤس تک نہیں پکڑ سکتی۔
طلباء نے بتایا کہ واقعی انہیں ایک پی ایچ ڈی ٹیچر پڑھاتے ہیں لیکن ان کی باتیں انہیں بالکل سمجھ میں نہیں آتیں، اور آئیں گی بھی کیسے؟ لیب انچارج ان کو کمپیوٹر کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا کہ کہیں وہ یہ خراب نہ کر دیں۔ میرا دل کر رہا تھا کہ تعلیم عام کردینے اور ناخواندگی ختم کر دینے کے دعوے کرنے والے پاکستان کے تمام بڑے بڑے ارباب اختیار کو اس کلاس میں لے کر آؤں اور ان سے پوچھوں کہ کیا یہ ہیں آپ کی تعلیمی پالیسیاں؟ ان طلباء کا آخر کیا قصور ہے؟ یہ وہ طلباء ہیں جنہوں نے قوم کا معمار بننا ہے جب خود ان کو کچھ نہیں پتا تو آگے چل کر ان سے بھی ہم یہی توقع کر سکتے ہیں۔
پرنسپل صاحب کو کلاس میں نہیں آنا تھا نہ آئے، اور میں نے اس کا مطلب سمجھ لیا تھا، چنانچہ بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ یہ تو تھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ایک سرکاری تعلیمی ادارے کی داستان۔ اب اگر ہم تحصیل اور گاؤں کی سطح پر چلے جائیں تو حالات مزید دگرگوں نظر آئیں گے میڈیا میں بھی بارہا ان تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کی جانب حکومت کی توجہ دلوائی گئی ہے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور یوں ہر سال کتنا ہی قیمتی ٹیلنٹ حکومتی نااہلی کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔
جانیے: گوسڑو ماستر تعلیم کے لیے خطرہ
حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی اصلاحات لے کر آئے اور ان اداروں میں ایسے اساتذہ کو تعینات کیا جائے جو واقعی میں ایسے ہونہار طلباء کو مناسب راہنمائی دے سکیں۔ اساتذہ کی تنخواہ اور دیگر سہولیات میں اضافہ کیا جائے اور ان کی سخت مانیٹرنگ کی جائے اور اس رجحان کو زائل کیا جائے کہ جو کچھ نہیں بن سکتا، وہ استاد بن جاتا ہے۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں لوگ بی ایڈ اور ایم ایڈ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ بیشتر خواتین، جن کی شادی میں دیر ہو جاتی ہے وہ بی ایڈ میں داخلہ لے لیتی ہیں، اور بیشتر نوجوان جن کو کہیں داخلہ نہیں ملتا، وہ بی ایڈ کر لیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ بی ایڈ کرنے کے بعد ان پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہونے والی ہے، اور وہ قوم کے معمار بننے جا رہے ہیں۔
اس لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ ایجوکیشن یونیورسٹیوں کا معیارِ تعلیم بہت بلند ہونا چاہیے، اور یہاں پڑھنے والے طلباء کو انتہائی جدید خطوط پر تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ جب قوم کے یہ معمار عملی میدان میں اتریں، تو یہ ان طلباء کی اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ مناسب کونسلنگ بھی کر سکیں۔ میری ذاتی رائے کے مطابق اگر ہم صرف ان ایجوکیشن یونیورسٹیوں میں تعلیمی اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کر لیں، تو بہتری کی صورت پیدا ہو سکتی ہے، اور ہم ایسے اساتذہ پیدا کر سکتے ہیں جو آگے چل کر واقعی قوم کے معمار ثابت ہوں۔
احمد عثمان نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے آئی ٹی میں ماسٹرز کیا ہے.
وہ سیاسیات، سماجی مسائل، اور ٹیکنولاجی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ahmad_usman100@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔