پاکستان

مسیحی جوڑے کے قتل پر اکسانے والا مذہبی پیشوا گرفتار

قرآن پاک کی مبینہ توہین کے الزام میں مشتعل ہجوم کو مسیحی جوڑے کے قتل کرنے پر اکسانے والا مذہبی پیشوا گرفتار کر لیا گیا۔

لاہور: پولیس نے قرآن پاک کی مبینہ توہین کے الزام میں مشتعل ہجوم کو مسیحی جوڑے کے قتل کرنے پر اکسانے والے مذہبی پیشوا کو گرفتار کر لیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق پولیس نے منگل کو جوڑے کو ایک ایسے موقع پر مشتعل ہجوم سے بچایا تھا جب وہ قرآن پاک کی مینہ توہین پر مسیحی جوڑے کو قتل کرنے کے درپے تھا۔

یہ اپنے آپ میں ملک کا مثالی واقعہ تھا جہاں پولیس نے جوڑے کو ہجوم سے بچا لیا جہاں ماضی میں اس طرح کے واقعات میں متعدد مواقعوں پر توہین رسالت کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے مبینہ ملزمان کو قتل کرنے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

پولیس افسر سہیل ظفر چٹھہ نے بتایا کہ مشتعل ہجوم کو اکسانے والے مذہبی پیشوا نے پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جوڑے کو گرفتار کر کے ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرے۔

انہوں نے ایک ٹیلیفونک انٹرویو میں کہا کہ میں نے اس سے کہا کہ کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا کیونکہ کوئی توہین ہوئی ہی نہیں لیکن میں نے اس مذہبی رہنما اور 400 دیگر افراد کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے اور جوڑے کی زندگی کو خطرے سے دوچار کرنے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسیحی جوڑے کو ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت سے بچالیا گیا

صدر فاروق آباد کے علاقے میں تقریباً 500 افراد نے اس وقت اویس مسیح اور ان کی بیوی پر حملہ کر دیا جب ان کے پڑوسی نے اطلاع دی کہ وہ ایک ایسی پلاسٹک شیٹ پر سو رہے ہیں جس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔

جب ہجوم نے انہیں مارنا شروع کیا تو پولیس انہیں بچا کر لے گئی۔ بعد میں جوڑے کو بطور حفاظت حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

سہیل ظفر نے مزید بتایا کہ وہ ہجوم اپنا دماغ بنا چکا اور انہیں اسی وقت قتل کرنا چاہتا تھا اور یہ سب کچھ ان لوگوں کی غربت اور ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ہوا جنہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ انہوں نے جو شیٹ خریدی ہے اس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔

مسیحی برادری کے افراد جو پاکستان کی بیس کروڑ کی مسلم اکثریت کی آبادی میں لگ بھگ چار فیصد حصہ ہیں، کو حالیہ برسوں میں پُرتشدد ہجوم اور عسکریت پسندوں دونوں کی جانب سے تیزی کے ساتھ ہدف بنایا گیا ہے۔

گزشتہ سال ذہنی طور پر بیمار ایک برطانوی شخص کو توہین کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اسی سال عدالت نے توہین کی ملزم آسیہ بی بی کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

یہ مقدمہ عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی اس وقت شہ سرخیوں میں آ گیا تھا جب اس خاتون کا دفاع کرنے والے دو مقامی سیاستدانوں کو بھی مبینہ طور پر اسی جرم میں قتل کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ جبری مشقت کا شکار مزدور شہزاد مسیح اور اس کی حاملہ بیوی شمع بی بی کو پندرہ سو افراد سے زیادہ کے ہجوم نے تشدد کے بعد اینٹوں کی ایک بھٹی میں پھینک کر زندہ جلادیا تھا۔

انہوں نے یہ ظلم محض یہ افواہیں سننے کے بعد کیا تھا، کہ اس جوڑے نے قرآن کے صفحات کچرے میں پھینک دیے تھے۔