اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ویسے تو عہدِ جوانی اور یونیورسٹی میں گزرنے والی ہر شام رنگوں اور خوشبوؤں سے معطر ہوتی ہے، لیکن ہماری جامعہ زرعیہ فیصل آباد کی وہ شامیں اور راتیں بھلائے نہیں بھولتیں، جن میں السٹونیا کے پھول سارے ماحول کو جادوئی سا کر دیتے تھے، جیسے بانو قدسیہ کے ناول کا راجہ گدھ چاندنی راتوں میں دیوانہ سا ہو جاتا تھا، ایسے ہی ڈھلتی گرمیوں کے وقت ان پھولوں کی مہک میں دل والوں کی آنکھوں میں نیند نہ پڑتی تھی۔
ان راتوں میں ایسی کشش تھی کہ کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں، ٹھہر جائیں ذرا کا سا سماں بندھتا تھا۔ خیر جامعہ بھی وہیں ہے، اور اس کے یو روڈ پر لگے ہوئے السٹونیا کے درخت بھی وہیں ہیں، ابھی کچھ دو تین ماہ میں خوشبو بھری راتیں آیا چاہتی ہیں، جس کو وقت میسر ہو ان راتوں میں اپنی یادوں کو مہکا سکتا ہے۔
شہہ سرخیوں میں گرمی کی شدت کے ہاتھوں 1000 سے زائد لوگوں کے مرنے کے خیالوں نے مجھے جامعہ کی ٹھنڈی سڑک پر پہنچا دیا۔ وہ ٹھنڈی سڑک جس پر گھنے درختوں کا سایہ تھا اور بے شمار پرندوں کے گھونسلے۔ ہم جامعہ کے دوست گرمیوں کی شاموں میں تندور ایسے کمروں سے نکل کر اس ٹھنڈی سڑک کی سیر کو جاتے، تو سرِ شام پرندوں کے قافلے بھی جامعہ کی اسی سڑک پر اپنا اجتماع کرتے۔ طالبعلم سارے دن کی کارستانیاں ایک دوسرے کے گوش گذار کرتے، اور اسی دوران کچھ شرارتی پرندے تاک تاک کر جامعہ کے معصوم طالبعلموں کے دھلے ہوئے کپڑوں پر پچکاریاں بھی مارتے تھے۔
تصاویر: دنیا کے 16 شاندار درخت
جامعہ کے گرد و نواح کے لوگ بھی اپنے جلتے گھروں کو چھوڑ کر جامعہ کے سبزہ زاروں کا رخ کرتے، اور یوں ہر صبح اور شام کو زرعی یونیورسٹی کے دالانوں میں ایک میلے کا سا ساماں رہتا تھا۔ ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ جامعہ کے اندر کا درجہ حرارت باقی کے شہر کے درجہ حرارت سے ایک دو درجے کم ہی رہا کرتا تھا، اور اس کی وجہ بلاشبہ جامعہ میں موجود بے شمار درخت اور پودے ہی تھے۔
وہ تمثیلی کہانیاں جن میں بادشاہ بوڑھوں سے پوچھا کرتے ہیں کہ اس عمر میں درخت کیونکر لگا رہے ہو، اور دانا کا یہ جواب کہ ہمارے بڑوں نے لگائے ہم نے پھل کھایا، اور ہم لگائیں گے تو ہمارے بچے پھل کھائیں گے، اب پرانی ہوچکیں۔ اب عمل کا وقت ہے۔ میں اور میرے دوست پچھلے دو سالوں سے ایک عمل کا حصہ ہیں، جس کا نام فروٹ فار لائف ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت ہم نے پاکستان میں پھلدار پودے لگانے کے سلسلے کا آغاز کیا ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ ان پھلدار اور سخت جان درختوں کو واپس اپنے ماحول میں لایا جائے جو یہاں پہلے سے موجود تھے، جیسے پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں کے ساتھ شہتوت، بیریاں، امرود، جامن، سنگترے، انار، اور ایسے بے شمار پھلدار درخت موجود تھے، جن کے پھل پر ہر کسی کا حق تھا، اور گاؤں کے لوگ مل بانٹ کر کھاتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر کے اندر انار کے درخت پر جب پھل آتا تو ہمارے دوست، ہمسائے اپنے اپنے انار کے پکنے کا انتظار کرتے، اور پھر جب پھل پک جاتے تو سب کو بانٹ دیے جاتے۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے اس پراجیکٹ کا آغاز کیا تھا۔
پڑھیے: سوات کے درخت تحفظ چاہتے ہیں
ہمارا کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں اگر وہ ایک پودے کی نگہداشت کی ذمہ داری اٹھا لیں، تو ان کو پودا مفت فراہم کیا جائے گا۔ پودے کی نگہداشت کی ذمہ داری اٹھانے والا وقتاً فوقتاً پودے کی بڑھوتری کے متعلق ہمیں آگاہ کرتا رہے گا، اور اگر اسے کسی قسم کی تکنیکی راہنمائی کی ضرورت ہوگی تو ہم مہیا کریں گے۔
اس پراجیکٹ کے تحت اب تک بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے طالبعلموں اور اساتذہ کے توسط سے کم از کم 3 ہزار پھلدار پودے تقسیم بھی کیے گئے ہیں۔ اسی سال مارچ میں میں نے خود اپنے شہر چیچہ وطنی میں سنگترے کے 90 پودے مختلف اسکولوں میں لگوائے ہیں۔
پاکستان میں شجرکاری کے لیے بہت سے ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ سندھ کی حد تک رفیق سومرو ٹرسٹ، پنجاب میں مورنگا کے حوالے سے ڈاکٹر شہزاد بصرہ صاحب مورنگا فار لائف کے نام سے بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ محکمہ جنگلات بھی شجر کاری کی مختلف مہمات کا آغاز کرتا رہتا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت کا ایک ارب درختوں کا منصوبہ بھی خوش آئند ہے، لیکن اس قسم کے منصوبے لوگوں یعنی عوام کی عملی شراکت داری کے بغیر بالکل ناکام ہیں۔ اس کے لیے ہمیں مل جل کر کوشش کرنا ہے۔
مزید پڑھیے: ڈرونز کے ذریعے سالانہ 1 ارب درخت لگانے کا منصوبہ
ابھی کل ہی ہمارے بلاگر دوست محمد اسد اسلم صاحب نے آئیڈیا پیش کیا ہے پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ کے قریب فیس بک صارفین ہی اگر اپنی حصے کا پودا لگا دیں تو ماحول میں خاطر خواہ بہتری لائی جا سکتی ہے۔
فراز نے کہا تھا کہ
شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ہم ٹمبر مافیا، بلڈر مافیا کو درختوں کی کٹائی کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، لیکن کیا ہم خود اس کے منفی اثرات زائل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں؟ اپنے ماحول سے جو آکسیجن ہم لیتے ہیں، کیا اس کے بدلے ہم اپنے ماحول کو کچھ دے رہے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہیں ہمیں خود سے ضرور پوچھنا چاہیے۔
ہو سکتا ہے آپ اپنی زندگی کی سبھی آرزوئیں پوری نہ کر پائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری بہت سی خواہشیں ادھوری رہ جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم سے کوئی بڑا کام نہ ہو پائے۔ لیکن ایک چھوٹا سا قدم، چھوٹا سا کام جو بڑے مقصد کے لیے ہے، اس کا آغاز آپ سے ہو سکتا ہے۔ اٹھیے، قدم بڑھائیے، اور اپنے حصے کا ایک پودا لگائیے۔
جانیے: بیٹی کی پیدائش پر اُگایا جاتا ہے پھلدار درخت
ہو سکتا ہے کہ پھر سے تنہائیاں مہک اٹھیں، اور لو سے جھلس جانے والے 1300 لوگوں میں سے کسی کو تو ٹھنڈی سڑک کی ٹھنڈی چھاؤں میسر ہو۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
فروٹ فار لائف کا عملی طور پر ساتھ دینے کے لیے یہاں کلک کریں۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔