نوکوٹ: صرف وقت سے شکست کھانے والا قلعہ
جس طرح گھر کا آنگن ہوتا ہے، بالکل اسی طرح شہروں کے بھی آنگن ہوتے ہیں، سمندر کا بھی آنگن ہوتا ہے، اور خطوں کے بھی آنگن ہوتے ہیں۔ میں سورج ڈوبنے سے کچھ گھنٹے پہلے جب 'نوکوٹ' کے قلعے کی طرف جا رہا تھا تو راستے کے دونوں طرف دودھ جیسی سفید زمین بچھی ہوئی تھی۔ کیونکہ میں شمال سے جنوب کی طرف جا رہا تھا تو مشرق کی طرف دور سے مجھے ریت کے ٹیلے نظر آئے جس کو مقامی زبان میں (واری جوں بھٹوں) کہتے ہیں، اور یہ نام سن کر تصور میں 'تھر' کا صحرا اگ آتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب ساون بھادوں جی کھول کر برسیں تو یہ صحرا صحرا نہیں رہتا، بلکہ حدِ نگاہ تک ہریالی کی چادر سی بچھ جاتی ہے، نخلِستان سا بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ تھر کو دیکھنا ہو تو تب دیکھو، لیکن اب تک بادل نہیں برسے ہیں اور میں سوکھے تھر کو دیکھ رہا تھا۔
راستے کے مغرب میں پہلے ویرانی آئی، اور پھر اچانک آموں کے ایک وسیع باغات کی ہریالی چھا گئی اور ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ اس کے بعد پھر سفید مٹی اور ویرانی آگئی۔ کہیں کہیں کوئی بچہ بکریاں چرا رہا تھا، پھر ایک جگہ ایک گھاس پھوس کی جھگی بنی ہوئی تھی۔ میں نے ایک مقامی باشندے سے پوچھا: "یہ تھر ہے!؟"
"جی یہ تھر ہے"، محمد ابراہیم نے آدھی سفید اور آدھی سیاہ مونچھوں کو انگلیوں سے مروڑ کر جواب دیا۔
"یہ تھر کیسے ہے؟ یہاں ریت تو ہے نہیں، بس سفید مٹی ہے، تو تھر کیسے ہے!؟
"اس کو ہم 'مہرانو' کہتے ہیں، جس طرح سندھ میں 'لاڑ' (لوئر)، 'وچولو' (سینٹرل) اور 'اتر' (اَپر) کہتے ہیں، اس طرح ہمارے تھر کے علاقوں کے بھی مختلف نام ہیں، اور یہ ہمارے تھر کا جیسے آنگن ہے۔" اس بات کی آخر میں محمد ابراہیم نے موچھیں نہیں مروڑیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔
نوکوٹ کا قلعہ، جسے سندھی میں نئوں کوٹ کہتے ہیں، میرپور خاص سے 60 کلومیٹر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں تک بدین جھڈو روڈ سے بھی جایا جا سکتا ہے، اور یہاں سے بھی اتنا ہی فاصلہ ہوگا۔ میں نے جب نوکوٹ قلعے کو دیکھا تو حیرت کی کئی فاختائیں تھیں جو میرے دل و ذہن کے امبر پر اڑتی تھیں۔ ایک شاندار اور خوبصورت قلعہ کافی اچھی حالت میں میرے سامنے تھا۔
یہ قلعہ 1814 میں میر کرم علی خان تالپور نے تعمیر کروایا تھا۔ اس قلعے کی تعمیر کے حوالے سے بہت ساری کہانیاں اور وجوہات تھیں۔ اس قلعہ کے متعلق بہت ساری پراسرار باتیں ہیں جو کتابوں کی تحریریں بھی کرتی ہیں اور مقامی لوگ بھی۔
کلہوڑا حکمرانوں سے 1783 میں میر فتح علی خان نے سندھ کی حکومت حاصل کی اور خود تخت پر بیٹھا، اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے اس نے اپنے تین بھائی، میر کرم علی، میر غلام علی اور میر مراد علی کو حکومت میں شامل کیا، اور ان چاروں بھائیوں کی حکومت پہلی 'چئو یاری' (چار یار) کے نام سے مشہور ہوئی۔
تالپور عہد نے 60 سردیاں اور 60 ساون دیکھے، 1783 سے 1843 تک، اور یہ 60 برس کا مختصر عہد سیاسی ریشہ دوانیوں کا زمانہ رہا۔ سازشیں تھیں کہ روز نیا روپ لے لیتیں، کبھی شجاع الملک کی پریشانی کبھی سردار محمد عظیم کی حملے کی دھمکیاں اور ہر بات آ کر نقد اور تحائف پر ختم ہوتی۔ 'عمرکوٹ' پر 'جودھپور' کے مہاراجہ کا قبضہ تھا، جبکہ جنوب کی طرف "سوڈھے سردار" تھر والی اراضی پر قابض تھے۔ وہ 'کلہوڑوں' کو تو خراج دیتے تھے مگر جیسے ہی میروں نے حکومت قائم کی انہوں نے خراج دینے سے انکار کردیا۔
ان حالات کے مدنظر میر فتح علی خان نے فیصلہ کیا کہ سختی کیے بنا خراج موصول نہیں ہوگا، اس لیے تھر کی مختلف جگہوں پر قلعے تعمیر کیے گئے اور ان قلعوں میں حکومتی مشینری کے کارندوں کو بٹھایا گیا کہ 'سوڈھوں' سے لگان لیں اور تالپور اس میں کامیاب بھی رہے۔
میر کرم علی خان 1812 میں تخت پر بیٹھا، 1813 میں جودھپور کے راجہ سے 'عمرکوٹ' واپس لیا، اور تھر میں کچھ قلعے بھی تعمیر کروائے۔
اعجازالحق قدوسی 'تاریخِ سندھ' میں تحریر کرتے ہیں: "میر کرم علی خان بڑا سخن سنج، صاحبِ فضل، اور شاعر اور علماء کا قدردان تھا، اس کی قدر افزائیوں کی بدولت ایران اور خراسان کے بہت سے علماء نے حیدرآباد میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ٹھٹھہ کے علمی زوال کے بعد حیدرآباد علوم و فنون کا مرکز بنا۔"
نوکوٹ کے اس قلعہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میر کرم علی کو تھر سے خاص لگاؤ تھا اور یہاں اکثر آتا رہتا تھا، اس نے اپنے رہنے کے لیے ایک خاص قلعہ نوکوٹ 1814 میں بنوایا۔ یہ قلعہ تھر کے دوسرے قلعوں جیسے فتح گڑھ، سینگاریو، چیلہار، اور اسلام کوٹ سے بڑا ہے۔ اس قلعہ کے بنانے پر 8 لاکھ روپے سے زیادہ کی لاگت آئی ہوگی۔ یہاں میروں کے سپاہی رہتے تھے اور ساتھ میں بارود، بندوقیں اور توپیں بھی تھیں۔
اشتیاق انصاری اپنی کتاب "سندھ جا کوٹ ائیں قلعا" میں تحریر کرتے ہیں: "یہ ایک ریگستانی اور چوکور قلعہ ہے۔ اس قلعے کے سامنے والے حصے کی لمبائی 366 فٹ اور چوڑائی 310 فٹ ہے، پکی اینٹوں کو جوڑنے کے لیے مٹی کا گارا اور چونا استعمال کیا گیا ہے۔
"اس قلعے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا حصہ فوجی اور انتظامی حوالہ سے بہت ہی اہم ہے، یہ ایک دمدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، شاہی دروازے سے داخل ہونے کے بعد آپ 48x40 کے دمدمہ میں پہنچ جاتے ہیں، یہاں پر قلعے کی مشرقی اور شمالی دیواروں کے نیچے کمانی دار چھت والی بیرک نما کوٹھڑیاں ہیں۔ ان میں نہ کوئی کھڑکی ہے نہ ہوا اور نہ روشنی کا انتظام۔
"ان اندھیرے میں ڈوبی ہوئی بیرکس کے متعلق مقامی روایات بہت ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بارود رکھا جاتا تھا، کسی کا خیال ہے کہ خطرناک قیدی رکھے جاتے تھے اور بات یہ بھی سننے میں آتی ہے کہ یہاں پھانسی گھاٹ تھا اور لوگوں کو پھانسیاں دی جاتی تھیں، کیونکہ ان کی چھتوں پر ٹانگنے کے لیے کچھ لوہی کڑے لگے ہوئے ہیں اور کچھ اینٹوں سے بیٹھنے کی نشستیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ کسی زمانہ میں ان کوٹھیوں کے لیے دروازے بھی تھے لیکن اب فقط ان کے نشانات رہ گئے ہیں۔"
اگر دشمن یہاں تک یعنی دمدمہ تک پہنچ بھی جائے تب بھی قلعہ کو فتح نہیں کرسکتا، کیونکہ رہائشی حصہ میں جانے کے لیے مغرب کی طرف 12 فٹ کا ایک اور مضبوط دروازہ ہے۔
اب اس وقت اس دروازہ کا نام و نشان نہیں ہے، البتہ اس جگہ کی نشانیاں بتاتی ہیں کہ یہاں ایک بڑا مضبوط اور خوبصورت چوبی دروازہ نصب رہا ہوگا۔ دروازے کے دونوں طرف 10x6.9 فٹ کی چوکیداروں کے بیٹھنے کی جگہیں ہیں جو چوکیداری کرنے کے ساتھ دروازہ کھولتے اور بند کرتے ہوں گے۔
آپ اس دروازے سے جیسے ہی رہائشی حصے میں داخل ہوتے ہیں، ایک وسیع، شاندار، اور خوبصورت منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ پیلو اور جھڑبیری کے ہرے بھرے درخت آپ کو 'آداب' کرتے ہیں۔ قلعے کی وسیع اراضی میں پھیلی مضبوط دیواریں، کھلا نیلا آسمان، اگر دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو یہ سب بہت خوبصورت ہے۔
آپ کے بائیں ہاتھ کی طرف قلعے پر اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں ہیں، اور جنوبی دیوار کے ساتھ دو کمانیدار چھتوں والی کوٹھیاں ہیں جن میں سے مغربی کوٹھی کی چھت گر چکی ہے، ان کے شمال میں ایک اور گنبد نما کمرہ ہے جس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے بس ایک دروازہ ہے۔ محترم اشتیاق انصاری ان کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ ان تینوں کمروں میں بارود رکھا جاتا تھا۔
پھر اس گنبدی کمرے سے آپ اگر شمال کی طرف دیکھیں تو آپ کو کسی چھوٹے سے محل کے خستہ سے آثار نظر آئیں گے۔ نزدیک جا کر معلوم پڑتا ہے کہ ان رہائشی کمروں کو کچھ اونچائی پر بنایا گیا ہے۔
ایک زمانے میں یہ بڑی خوبصورت رہائش رہی ہوگی کیونکہ میر کرم علی اکثر یہاں آیا کرتا تھا، اور تالپوروں کے دور حکومت کے آخر میں میر شیر محمد خان جسے 'شیرِ سندھ' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اکثر یہاں آکر رہتا تھا۔
ہر ایک کمرہ تقریباَ 20X16 فٹ کا ہے، اور فرش سے چھت تک دیوار پندرہ فٹ اونچی ہے۔ اشتیاق صاحب تحریر کرتے ہیں کہ: ہر ایک کمرے میں دیواروں میں سامان رکھنے کے لیے دو دو کباٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو خوبصورت بنانے کے لیے ان پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔
رہائشی حصہ کے سارے کمرے دروازوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، بلکہ ہر کمرہ کا ایک دروازہ باہر کی طرف بھی ہے۔ یہ سارا بندوبست اور احتیاط دفاع کے خیال سے کیا گیا تھا کہ اگر حالات اتنے کشیدہ ہو جائیں تو نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہو، مگر یہ ایک ایسا مضبوط اور فن تعمیر کا شاہکار قلعہ ہے، جسے زیر کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ اسے مضبوط بنانے میں، شاید کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
نوکوٹ کے اس خوبصورت قلعہ کو نو برجوں نے سنبھال کر رکھا ہے۔ اشتیاق انصاری لکھتے ہیں:"دستور مطابق یہ برج قلعے کے چاروں کونوں کو سنبھال کر کھڑے ہیں۔ دو مرکزی دروازے اور دمدمہ کی نگرانی کرتے ہیں، اور تین برج شمال، جنوب، اور مغربی دیوار کے بیچ میں اس کی مضبوطی میں مدد کر رہے ہیں۔ ان نو برجوں میں سب سے مضبوط برج کچھ اس طرح چھپا ہے کہ اسے ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ اس کا قطر 44.6 فٹ اور اس کا گھیراؤ 139 فٹ ہے۔ اس قلعے کے برج اتنے مضبوط ہیں جس کا ہم شاید جلدی سے اندازہ بھی نہ کر سکیں۔ یہ پہاڑ جیسے مضبوط ہیں۔ ان پر چھوٹے چھوٹے حملے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔"
تالپوروں کی حکومت ختم ہوئی تو 'فرنگی' ان علاقوں کے مالک بنے۔ ان قلعوں کے متعلق 'کیپٹن ایس این ریئکس اپنی کتاب "تھر ائیں پارکر جو احوال" میں لکھتے ہیں: "اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے تالپوروں نے بڑا خرچ کر کے قلعے تعمیر کروائے، جہاں سے ان کے فوجی عملدار زمینوں سے لگان وصول کرتے تھے، اور جو لگان نہیں دیتے تھے ان کو ان قلعوں میں قید کر کے سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان قلعوں میں 'سوڈھا سرداروں' کو قلعدار بناکر رکھا گیا، یہ جو زمینیں کرتے تھے، اس آبادی سے لگان معاف تھی۔"
کیپٹن ریئکس نے ان قلعوں کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا ہے، یہاں تک کہ، 'ان قلعوں کو گرا دیا جائے'، اور کچھ قلعوں کو انہوں نے زمین دوز بھی کیا۔ لیکن جب وقت کے آسمان نے رنگ بدلا، اور 1843 میں برٹش راج کی حکومت قائم ہوئی، تو 'کیپٹن ریئکس' لکھتے ہیں: "سندھ کو فتح کرنے کے بعد فوراً 'مٹھی' کے دو سوڈھا سرداروں کو پندرہ روپیہ ماہانہ کی تنخواہ پر 'مٹھی' اور 'نوکوٹ' کے لیے 'قلعدار' مقرر کیا گیا، ہر ایک قلعہ میں 25 سپاہی پانچ روپیہ ماہوار تنخواہ پر مقرر کیے گئے اور قلعدار جو زمین آباد کرے گا اس پر سے لگان معاف ہوگی۔"
میں سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر گیا۔ سورج مٹی کی دھند میں چھپا ہوا جیسے بے نور سا ہو گیا تھا، حد نگاہ تک 'مہرانو' کی دودھ جیسی سفید مٹی بچھی ہوئی تھی، ہزاروں برس 'ہاکڑو' ان زمینوں سے بہہ کر جنوب میں 'کوری نار' میں جا کر اپنا سفر ختم کرتا تھا، لیکن اپنے ساتھ لائی ہوئے ریت اور مٹی سے جو زرخیز زمین بنی وہ میرے سامنے پھیلی ہوئی تھی۔
دور مشرق کی طرف ریت کے ٹیلے تھے۔ میں دیوار پر چلتا گیا۔ میں نے توپوں کی جگہیں دیکھیں۔ کہتے ہیں کہ میر کرم علی، جس کے نصیب میں اولاد کا سکھ نہیں تھا، وہ جب اس قلعہ میں آتا تھا تو اس کو توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ میں نے شمال کی طرف دیکھا، سامنے کچھ کچی جھونپڑیاں تھیں۔ کچھ 'چونرے' (تھر میں رہائش کے لیے مخصوص قسم کی کٹیا) تھے، جن کے آنگن میں لوگ ہم سے بے نیاز شام کی چائے پیتے تھے اور آپس میں اپنے دردوں اور امیدوں کی باتیں کرتے تھے۔
اس قلعہ کے لیے کہا جاتا تھا کہ یہ ایک مضبوط قلعہ ہے اور چھوٹا موٹا حملہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بات صحیح تھی۔ پر وقت کسی سے رشتہ نہیں رکھتا، وقت کے بے رحم تھپیڑوں نے اس قلعے کی مضبوطی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
محکمہ آثارِ قدیمہ نے شاید اس قلعے کو بچانے کا سوچا ہے، اس لیے اس قلعے کی بحالی کا کام چل رہا ہے۔ اگر اس قلعے کو تحفظ دینا ہے تو کام، دل، جنون، دیکھ بھال اور سچائی سے ہونا چاہیے، کیونکہ میں نے کچھ نئی لگائی ہوئی سرخ اینٹوں کو دیکھا جو ابھی سے گلنا شروع ہوگئی ہیں، اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
سورج ڈوب چکا تھا۔ ہلکی روشنی ابھی تک تھی۔ میں نے باہر سے اس وسیع اور شاندار قلعے کی شان کو دیکھا۔ قلعے کی دیواروں اور آسمان نے یہاں بہت کچھ دیکھا ہوگا، لیکن تاریخ کے اوراق اور ہمارے ذہن ان حقائق سے ناواقف ہیں۔ ایک تشنگی کا احساس تھا جو میرے اندر میں آکاس بیل کی طرح اگتا تھا۔ میں اس قلعے کے پاس رہنا چاہتا تھا، بہت کچھ جاننا چاہتا تھا، لیکن بہت کچھ ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ میں نے تصور میں احترام اور تشنگی کے پھول قلعے کے برجوں کے قدموں میں رکھے اور واپسی کی راہ لی۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔