خان کا ڈھابہ: ایک تصویری کہانی
ویسے تو لفظ ڈھابہ ہائی وے پر موجود روایتی کھانے پیش کرنے والے ریسٹورنٹس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سڑک کنارے قائم یہ جھونپڑے، جن میں بیٹھنے کے لیے چارپائیاں موجود ہوا کرتیں، زیادہ تر آتے جاتے ٹرک ڈرائیوروں سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ چارپائیاں لکڑی کی میز و کرسیوں سے بدل گئی ہیں۔ لیکن اب بھی ڈھابے پر کھانے میں وہ مخصوص دیسی مزہ ضرور ملتا ہے۔
لیکن اب لفظ ڈھابہ دیسی کھانوں کے ساتھ اس حد تک وابستہ ہوگیا ہے کہ امریکا اور یورپ میں کئی ہندوستانی اور پاکستانی ریسٹورینٹس اس کا استعمال اپنے ناموں میں کرتے ہیں۔
میں اکثر ملیر کینٹ میں موجود ایک ایسے ہی ڈھابے کے پاس سے گزرتا ہوں۔ جس طرح ایک پرکشش کہانی پڑھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی ہے، اسی طرح میں بھی اس جگہ کے حیرت انگیز مناظر اور آوازوں کی جانب کھنچا چلا جاتا ہوں۔
ایک دفعہ میں نے اس ڈھابے پر جانے کا فیصلہ کیا۔ پشاور سے کراچی منتقل کیے جانے والے اس ڈھابہ کو دو پختون بھائی چلاتے ہیں۔
جب میں ان کے پاس گیا اور ان سے تصاویر اتارنے کی اجازت مانگی، تو انہوں نے حیرت انگیز طور پر رضامندی ظاہر کردی۔ حیرت انگیز اس لیے کیونکہ کئی بار مجھے چھوٹے ریسٹورینٹس اور ڈھابوں سے بھگا دیا جاتا ہے کہ کہیں ان کی ترکیبیں یا مخصوص اجزاء لوگوں کے سامنے نہ آجائیں۔
سُر گل، جو اس ڈھابے کے مالک ہیں، اپنے اس چھوٹے سے ڈھابے پر، اور یہاں پیش کی جانے والی ہر چیز پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
چائے کے کونے میں سُر گل کے بھائی علی شیر خان کھڑے ہو کر چائے تیار کرتے ہیں، ناشتے میں یہ لوگ کیک رسک، ڈبل روٹی، کیک، پاپے، اور پراٹھے پیش کرتے ہیں۔
مددگار لڑکے گاہکوں کو کھانا پیش کرتے ہیں، سبزیاں کاٹتے ہیں، مصالحے تیار کرتے ہیں، برتن دھوتے ہیں، اور ڈھابے کی صفائی کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ خوش اور بھائیوں کی طرح ہنسی مذاق کرتے نظر آتے ہیں۔
جب ہم ان کے کاروبار اور کھانے کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، تو سُر گل کا کہنا تھا: "آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں موجود سب چیزیں، سبزیاں، گوشت، برتن، مصالحے، سب اچھے معیار کی اور صاف ستھری ہیں۔ ہم اپنے گاہکوں کے ساتھ ایماندار ہیں، اور انہیں وہی کھلاتے ہیں جو ہم خود کھاتے ہیں۔ آپ خان کے ڈھابے میں داخل ہو کر اپنے تمام شکوک و شبہات دور کر سکتے ہیں۔"
میں نے ڈھابے پر اچھا خاصہ وقت گزارا، اور ہر چیز کی تصاویر لیں، لیکن ایک بار بھی سُر گل کے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوا۔ اس کے برعکس انہوں نے مجھے کھانے اور چائے کی پیشکش کی۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر ایک عجیب سی بے چینی ہوئی کہ ایک بار بھی گل نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ میں کون ہوں، اور یہاں کیوں آیا ہوں۔
انہوں نے مجھے صرف ایک بار روکا، یہ کہنے کے لیے کہ:
"میری ایک اچھی تصویر لینا، اور اسے چھپوانا، میں اسے یہاں ڈھابے میں لگاؤں گا۔"
علی انس انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ میں میڈیا کے طالبعلم ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔