نقطہ نظر

کیا سائنس خواتین کے لیے نہیں ہے؟

سائنس کی دنیا میں کئی تحقیقات کو صرف اس لیے پذیرائی نہیں ملی، کیونکہ وہ خواتین کی جانب سے کی گئی تھیں۔

"یا تو آپ کو ان سے محبت ہوجاتی ہے یا پھر انہیں آپ سے، اور تنقید پر وہ رونے لگتی ہیں۔" نوبیل انعام یافتہ بائیو کیمسٹ ٹم ہنٹ نے خواتین سائنسدانوں کے حوالے سے اپنے ان امتیازی خیالات کا اظہار جنوبی کوریا میں ہونے والی ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس کے دوران کیا۔

اس عظیم سائنسدان کے نزدیک لیبارٹری میں خواتین سائنسدانوں کی موجودگی سائنسی دریافتوں میں مداخلت کا باعث ہے۔ ان کے خیال میں خواتین سائنس کے میدان میں تحقیق اور ایجادات کے لیے نہیں، بلکہ رومانس کے لیے آتی ہیں اور چونکہ وہ ہر وقت ہارمونز کے زیر اثر رہتی ہیں اس لیے وہ کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کر پاتیں، لہٰذا ان کی خواہش ہے کہ لیب پر صرف اور صرف مردوں کی اجارہ داری ہو اور بالکل جس طرح دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں، سائنس جیسا اہم مضمون بھی عورت ذات کی پہنچ سے دور رکھا جائے، یا کم از کم انہیں مرد سائنسدانوں سے الگ رکھا جائے تاکہ سائنسی دنیا کے یہ جنگجو پوری یکسوئی کے ساتھ کام کرسکیں۔

جناب ٹم ہنٹ کے یہ اعلیٰ خیالات سائنسی دنیا میں کام کر رہی ہزاروں عورتوں کے ساتھ ساتھ ہر اس عورت کے لیے ایک تضحیک آمیز طمانچہ ہیں، جو مردوں کی اس دنیا کے کسی بھی شعبے میں اپنا مقام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہی دنیا جہاں اسے اس کی ذہانت، محنت، اور قابلیت کے بجائے اس کے لباس، انداز و اطوار، اور جسم کے کھلے حصوں سے جانچا جاتا ہے۔ جہاں کسی قسم کی جنسی پیش قدمی کا خاطر خواہ (مثبت انداز) میں جواب نہ دینے کی پاداش میں اس کے لیے ترقی اور آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جاتے ہیں، اور بعض کیسز میں یہ بھی کوشش کی جاتی ہے کہ اسے پیچھے دھکیل دیا جائے۔

تصاویر: خیبر پختونخواہ کی خواتین کمانڈوز

مردوں کے معاشرے میں عورتوں کے لیے سب کچھ اس طرح سیاہ یا سفید نہیں جیسا کہ نوبیل انعام یافتہ معزز سائنسدان سمجھتے ہیں۔ انہیں ان رنگوں کے کئی روپ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنی شناخت بنانے اور دریافت کا راستہ اتنا سیدھا نہیں جتنا ان کے مرد ہم عصروں کے لیے ہے۔ انہیں جنسی امتیاز، ہراساں کیے جانے، اور کئی طرح کے دیگر چیلنجز کا سامنے رہتا ہے۔ اور یہ محض شعبہ سائنس کا ہی المیہ نہیں، بلکہ ہر میدان میں خواتین متعدد شکل میں استحصال کا شکار ہیں۔

اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں وہ مقام نہیں مل پاتا جو ان کے مرد ہم عصروں کو حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اب بھی خواتین کو مساوی تنخواہوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کی بات کی جائے تو مردوں کو زیادہ تنخواہوں کی پیشکش کی جاتی ہے، کیونکہ باسز میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مرد کو چونکہ گھر چلانا ہوتا ہے، اس لیے اسے پیسے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور خواتین کو کم۔

چاہے گھر چلانا ہو یا نہیں، دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا خواتین اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں سے کم کام کرتی ہیں؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر ان کے ساتھ تنخواہوں میں عدم مساوات کیوں برتی جاتی ہے؟

اسی طرح اگر سائنس کی بات کریں، تو یہاں بھی ایسی کئی خواتین کے نام گنوائے جا سکتے ہیں، جن کی سائنس کے لیے خدمات، اور ان کی حیران کن تحقیقات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں، لیکن انہیں صرف اس لیے پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ وہ خواتین کی جانب سے کی گئی تھیں، جبکہ وہی تحقیقات و نتائج جب مردوں کی جانب سے سامنے لائے گئے، تو انہیں فوراً تسلیم کر لیا گیا۔

پڑھیے: مارچ، دھرنے، اور خواتین

اپنی راہ میں حائل ان رکاوٹوں اور امتیازی سلوک کے باوجود پچھلی کئی دہائیوں سے خواتین زندگی کے ہر شعبے، بشمول سائنس، میں اپنا مقام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ بھی آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتیں منوانے کی اتنی ہی حقدار ہیں جتنا ان کے ہمعصر مرد حضرات، لیکن افسوس جب ٹم ہنٹ جیسے صاحب علم بھلے بقول ان کے "مذاق" میں سہی، خواتین سائنسدانوں کو غیر ذمہ دار، غیر سنجیدہ، اور جذباتی طور پر عدم توازن کا شکار ثابت کریں گے تو واجب ہے کہ منفی رجحان پھیلے گا اور عورت مخالف لابی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

سائنس کا کام حقائق کی روشنی میں سچائی کی تلاش ہے، لیکن ایک ماہ پہلے کشمیر میں ہونے والی ینگ انڈین انویسٹیگیٹرز میٹنگ کے دوران ٹم ہنٹ نے سائنسی میدان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی امتیاز اور ہراساں کیے جانے کی روئیداد سنیں، مگر اس کا اعتراف کرنے کے بجائے محترم سائنسدان نے بالکل الٹ مؤقف اختیار کیا، اور حقائق سے نظریں چرا گئے۔

یہ خیالات ٹم ہنٹ کے اپنے نہیں، بلکہ اس امتیازی کلچر کی پیدوار ہیں جہاں عورتوں کو ان کی حیاتیاتی ترکیب کی بنا پر قابل تضحیک سمجھا جاتا ہے۔ ایک ایسا کلچر جہاں انہیں اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے سجاوٹ و دلپذیری کا سامان مانا جاتا ہے۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کی صورت میں سوسائٹی کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اپنی مشکلات کی ذمہ دار یہ خود ہی تو ہیں۔ ان کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، گفتار ہو یا لباس، سبھی ایک مرد کو برائی کی ترغیب دیتے ہیں چنانچہ ایسی صورت میں کسی قسم کی پیچیدگی یا ہراسمنٹ کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔ مرد تو یہاں اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور غلطی کا پتلا ہے۔ ٹم ہنٹ اس امتیازی کلچر سے متاثر ہونے والے لاتعداد لوگوں میں سے صرف ایک نامور شخصیت ہیں۔

اگر تنقید کرنے والے کا رویہ تحقیر آمیز ہو تو خواتین کیا مرد بھی اس بات کا برا مانتے ہیں، خاص طور پر جب ناقد مخالف صنف سے تعلق رکھتا ہو۔ جناب ٹم ہنٹ اگر اپنے رویے پر نظر ثانی کریں تو ممکن ہے کہ خواتین ماتحتوں سے متعلق ان کی بیشتر شکایات دور ہوجائیں۔ بجائے شخصیت پر تنقید کے، ان کے آئیڈیاز پر تنقید کریں اور اپنی ذاتی ترجیحات و جذبات کو پس پشت رکھیں۔

جانیے: کرد خواتین داعش کے خلاف جنگ میں شامل

صاف لفظوں میں کہیں تو اپنے کام سے کام رکھیں اور دوران ملازمت "فلرٹنگ" سے احتراز کریں تو بہت سی 'پیچیدگیوں' سے بچا جاسکتا ہے جن پر انہوں نے اپنے اگلے انٹرویوزمیں روشنی ڈالی۔ ایک صحتمند پیشہ وارانہ ماحول کے لیے ضروری ہے کہ دونوں گروپس ایک دوسرے کے ساتھ مساوات اور احترام کا تعلق رکھیں، نہ کہ مبالغہ آمیز خیالات کا اظہار کریں۔

اس تمام واقعے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اپنے ناگوار اور جانبدارانہ ریمارکس کے باوجود ٹم ہنٹ سوشل میڈیا پر ہونے والے ردعمل پر نالاں ہیں اور اس بات کی امید رکھتے ہیں خواتین سائنسدانوں کی سوسائٹی ان پر کسی قسم کا "لیبل" نہ لگائے، اور ان کے خیالات کا احترام کریں۔ اخباری رپورٹس کے مطابق وہ اپنے اوپر ہونے والی "تنقید" پر آبدیدہ ہوگئے، اور اپنی بیگم (جو بذات خود ایک معروف سائنسدان ہیں) سے بالکل اسی طرح جذباتی سپورٹ کے متلاشی ہیں جس کی طلبگار ان کے مطابق ایک عورت ہوتی ہے۔ شاید محترم نوبیل انعام یافتہ بائیو۔کیمسٹ اپنی ذات کے اس "نسوانی" رخ سے ناآشنا تھے۔

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔