نقطہ نظر

علامت کا قتل

یہی رویہ ہے تو کل بھٹو، پرسوں اقبال اور پھر بندر روڈ، پاکستان کی علامت وہ بُلند سفید مقبرہ نہ رہا تو؟

دو عالمی جنگوں نےاُس یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی جس نے نشاطِ ثانیہ کے عہد سے ترقی کا رستہ دیکھا اور اس کے لوگ بھی اُس شے کی قدروقیمت سے آشنا تھے مگر پھر بھی شاہوں کے تخت و تاج کے تحفظ کے لیے تباہی کی کوئی حقیقت نہیں لیکن جیسے ہی دوسری عالمی جنگ تھمی، کان پکڑ کر توبہ کی اور سب اپنی اور تاریخی ورثے کی بحالی پر لگ گئے۔

سن اُنیّس سو سینتالیس کے بعد ہم نے برِصغیر کے میدان پر تین جنگیں لڑ لیں، ایک دو کا تو بِگل کشمیر میں بھی بجایا، اینٹ سے پتھر تو ہمارا بھی بجا مگر پھر بھی لڑائی پر بہت سارے اب بھی کمر بستہ ہیں۔

سرحدیں تو خیر اب جنگ کی گھن گھرج سے ذرا فاصلے پر نظر آتی ہیں لیکن جس ' قوم' کا خمیر ہی فسادات سے اٹھا ہو، اسے سکون کہاں نصیب۔ شاید اسی لیے بعض گروہ کی صورت 'سرحدوں پر گولہ باری نہیں تو اندر ہی سہی' پہ عمل پیرا ہیں۔

بابائے پاکستان کو چھوڑ کر، تقریباً زیادہ تر مہم جو ہی نکلے۔ محمد علی جناح نے سیکولر اور امن کا پیمان باندھا، اُن کی آنکھ لگتے ہی پیمان گیا بھاڑ میں، ایک نئے پاکستان کی تشکیل شروع۔

قراردادِ مقاصد سے لے کر جنرل ضیا کے اپنی ہی نوع کے 'اسلام' تک، کیا گھر کے مالک اور کیا اس کے باوردی بندوق بردار چوکیدار، سب کے اپنے اپنے کھیل تماشے۔ پاکستانی عمر کے اوائلی دس سالوں میں سیاست کی بساط، عدلیہ کی میز اور فوج، سب نظریں گاڑے حصّہ بقدرِ جُثہ' کے اصول پر مبنی بندر بانٹ پہ دیدے گاڑے بیٹھے تھے۔

پہلے تو ہم نے سیاست کے میدان پر ٹانگ گھسیٹنے کا عمل شروع کیا اور دھوتی بدلنے سے کم وقت میں، کئی وزیرِ اعظموں کے بستر ہی گول کردیے۔

قراردادِ مقاصد نے تو 'حاکمیت اعلیٰ' پر اوپر والے کا اقرار کر کے، صاحبانِ کرسی اور طاقت کو اُس کا 'نائب' مقرر کر دیا، یوں دو کام ہوگئے: مذہب کے نام پر راج سنگھاسن چلانے کا ہتھیار اور طاقت کے بل پر اپنی حاکمیت اعلیٰ، دونوں کو جواز مل گیا۔ ایسے میں ایوب خان اقتدار نہ پکڑتے تو کیا کرتے۔ بس اس کے بعد باقی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔

اسلام کے نام لیواؤں نے 'اپنے اپنے اسلام' کے اتنے ورژن تخلیق کیے کہ 'اس پرچم کے سائے تلے' سب کی دکانیں چل نکلیں۔ یہی نہیں اُمّہ کے نام پر بھی ایسے ایسے رنگ ایجاد کیے کہ قوس قزح کو بھی کہاں نصیب، گرگٹ بھی شرما کر رہ جائے۔

عرب۔اسرائیل جنگ وہاں فلسطین، اُردن، اسرائیل میں ہورہی تھی لیکن'اُمّہ کی گولہ باری' کی زد میں آکر، کراچی کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنے والے بچے کچھے چند سو یہودی آگئے۔

پھر پشاور اور کراچی کے سینی گاگ عبادت گذاروں سے خالی ہوئے۔ ہم نے مالِ غنیمت سمجھا۔ رنچھوڑ لائن کی یہودی عبادت گاہ رہائشی عمارت بن گئی، مقدمہ چلتا ہے تو چلتا رہے۔

ذرا اُمّہ سے نکل کر اندر جھانکا تو فرقے نظر آئے۔ پانچ جون، سن اُنیّسو تریسٹھ کو سندھ کے ضلع خیرپور میں یومِ عاشور پر فرقہ کے نام پر وہ ہلّہ بولا کہ مرنے والوں سے ایک پورا نیا قبرستان آباد ہوا۔ خیرپور ریلوے اسٹیشن کے ساتھ واقع گنجِ شہیداں میں اُن قبروں کا شمار ایک آدھ گھنٹے کا کام نہیں۔ لوحِ مزار پڑھتے جاؤ اور سمجھتے جاؤ۔

جب فرقہ واریت کا دائرہ مضبوط کرکے آس پڑوس میں تاکا جھانکی کی تو چھوٹے قد، پتلے دُبلے جسم لیکن روشن آنکھوں اور ذہین دماغوں والے اپنے ہی مسلمان بنگالی پاکستانی نظر آئے۔

پہلے تو انہیں خوب چھیڑا چھاڑا، پھر چٹکیاں لیں، بانہیں مروڑیں۔ دل نہ بھرا تو چوکیدارنے بندوق اٹھائی، کچھ بھائی بندوں نے ہاں میں ہاں ملائی ور شریک جرم ہوئے۔ مہم جوئی کامیاب، مشرقی پاکستان کو مار مار کر الگ کیا۔ اُس دن قائد کا آدھا احسان کڑی تپسّیا کے بعد اُتارا تھا۔ مانو بِن بھونے لوہے کے چنے چبائے ہوں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی بحالی کے واسطے، عالمی جنگوں کے بعد یورپ کی بحالی نظر میں رکھی اور ثقافت کو اس کا راستا سمجھا۔

اُن کے دور میں لوک ورثہ، نیشنل سینٹرز، اکادمی ادبیات اور مقتدرہ وغیرہ جیسے اداروں کی داغ بیل پڑی، جن میں فیض احمد فیض جیسوں سے بھی مشورے باہم تھے، مگر جن کے ہاتھوں میں مقدس ڈگڈگی تھی، اسے انہوں نے بجایا اور تقدس کی پامالی روکنے کے لیے 'جمہورا' فوج لے آیا۔

پھر تو اُس کے بعد سُرخ روس کی آڑ میں کھلم کھلا 'جہادی کھیل تماشہ' دس بارہ برس بڑے زور و شور سے جاری رہا اور کمیونسٹ روس کے آنجہانی ہونے کے بعد بھی، ضیائی جہادی فیوض و برکات جاری کا سلہ پوری آب و تاب سے جاری ہے۔

ذوالفقار بھٹو نے قومی بحالی کی کوشش کی اور 'اسلام پَروروں' کے ہاتھوں تختہ دار پر جھولے۔ ضیائی جہاد کو سرخ سوویت یونین کی موت کے بعد بھی قرار نہیں ملا۔

چین آکر ہماری مدد کرتا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے بھائی میرے سنکیانگ میں اپنے پیارے پیارے مسلح اسلامی بھائیوں کو داخلے سے روکیے۔

اُدھر روس اپنی وسط ایشیائی ریاستوں میں شدت پسندی کی دہائی ہمیں دیتا ہے۔ امریکا آنکھیں ہی نہیں دکھاتا، ڈرون بھیجتا ہے اور ہمارے مہمان اُسامہ کو راتوں رات لے بھی اڑتا ہے۔

مگر پھر بھی اچھے اور بُرے طالبان ہیں۔ ویسے بھی یہ اچھے اور بُرے کہاں نہیں ہوتے، ہمارے ہاں ہیں تو کیا کمال ہوا۔ اصل کمال تویہ ہے کہ انہیں اب تک بچا رکھا ہے۔

فاٹا سے کراچی اور پنجاب سے بلوچستان تک، طالبانوں کے 'اچھے بچے' کیا کیا گُل نہیں جو کھلاتے نہ پھر رہے ہوں۔

رہے چوکیدار تو انہیں شکوہ ہے تو بس اُن سے جو اُن پر زیادتی کا الزام لگا کر خدا داد ریاست سے علیحدگی کی تان اٹھاتے ہیں۔

یہ وہ کلمہ گو ہیں جو زندگی اور موت کو خدا کا لکھا نہیں سمجھتے بلکہ اُلٹا گولی بریدہ، زخم خوردہ لاشوں کا الزام سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیتے ہیں، فضول میں۔

وہ تو اچھا ہے کہ ان کے 'اچھے بچے' بھی خدا کے لکھے میں اُن کا ہاتھ بٹارہے ہیں۔ ویسے بھی تو آئینِ پاکستان کی قراردادِ مقاصد انہیں 'زمین پر نائب' بناتی ہے اور نائب ہمیشہ طاقتور ہی ہوتا ہے۔ موت زندگی اوپر والے کا اختیار مگر نائب کے بھی تو کچھ اختیارات تو ہوتے ہیں نا۔ پاکستانی وحدت کی علامت مزارِ قائد ہے مگر اس کی ایک اور ذیلی علامت 'زیارت ریزیڈنسی' ان کے 'رویوں' کی وجہ سے ہی شہید ہوئی۔

اُدھر فاٹا سے سوات، پشاور، کراچی اور اندونِ سندھ بھی مزار اور سلام والے عتاب میں ہیں۔ رحمان بابا اور خوش حال خان بہت بڑے رتبے پر فائز، یہاں تو نوشہرہ کے اپنے شاعر بابا اجمل خٹک کا گورِ غریباں بھی اُن سے نہیں بچا۔

سوچیے کہ آج پاکستان کی علامت پر علامتی حملہ ہوا۔ کل بھٹو، پرسوں اقبال اور پھر ترسوں۔۔۔۔ کراچی میں بندر روڈ کے ساتھ نمائش پر وہ بُلند و بالا سفید مقبرہ تو کراچی نہیں پورے پاکستان کی علامت اور آنکھوں کی عادت بن چکا، کسی دن نظر نہ آیا توآتے جاتےعجب بے کلی اور شرمندگی ہوا کرے گی۔

ویسے اگر وہ نہ رہا تو کیا فیصل مسجد کے داخلی دروازے پر واقع اُس سفید مقبرے پر پرچم لہرائے گا جس کی گور میں 'اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔'

زیارت میں قائد کی زیارت پر نہیں، مُلک کی علامت پر حملہ ہوا، پرانی کہاوت ہے: لوہے کا کلہاڑا کبھی درخت نہیں کاٹ سکتا اگر اُس کا دستہ خود لکڑی کا نہ ہو۔'


 

مختار آزاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔