'کے الیکٹرک کو ٹیک اوور کرلیں'
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما سید خورشید شاہ نے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کے حوالے سے وفاقی حکومت کو مشورہ دیا کہ ’کے الیکٹرک کو ٹیک اوور کرلیں، ہم حمایت کریں گے‘۔
بدھ کو اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ شدید گرمی سے 1200 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، یہ کے الیکٹرک کا نہیں پاکستان کا مسئلہ ہے۔
پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم کراچی کی ہلاکتوں کا رونا رو رہے ہیں اور حکوت کتاب کھول کر بیٹھ گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ "خدا کے لیے حکومت حساب کتاب چھوڑ دے، لوگوں کی جان بچائیں"۔
خورشید شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ملک کو آپ اور ہم نے مل کر چلانا ہے‘، 'جو بجلی استعمال کرتا ہے وہ بل ادا کرے'۔
اپوزیشن رہنما نے حکمران جماعت پر طنز کرتے ہوئے سوال کیا کہ کہاں ہے وہ بجلی جس کے بارے میں نواز لیگ کہتی تھی کہ 24 ہزار میگاواٹ بجلی ایک بٹن دبا کر سسٹم میں آجائے گی؟
|
کراچی کی صورتحال کی ذمہ دار وفاقی حکومت نہیں، خواجہ آصف
اس سے قبل ایوان میں توانائی کے بحران پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے بجلی بحران پر بحث کے لیے تحریک پیش کی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کراچی میں گرمی سے اموات ہوئیں جس پر افسوس ہے تاہم کراچی کی صورت حال کی ذمہ دار وفاقی حکومت نہیں ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کراچی میں اگر پانی کی قلت ہے تو وہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔
خواجہ آصف نے سوال کیا کہ تھر میں سیکڑوں بچوں کی اموات ہوئیں، کیا اس کی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت پر ڈالی جائے گی؟
ملک میں جاری بجلی بحران پر خواجہ آصف کا کہنا تھا یکم رمضان سے جو بحران شروع ہوا اس نے ملک کے طول و عرض میں بے چینی پیدا کی ہے۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اس وقت شہروں میں 5گھنٹے اور دیہات میں 8گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 14-2013 کے مقابلے میں 15-2014 میں 389میگاواٹ زیادہ بجلی پیدا کی البتہ اس وقت ملک میں بجلی کا شارٹ فال 3ہزار میگاواٹ ہے، 3 ہزار میگاواٹ کے شارٹ فال پر غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں کرتے۔
انہوں نے مختلف ڈسٹریبیوشن کمپنیز کی ریکوری کی صورتحال سے بھی اراکین کو آگاہ کیا۔
پنجاب کی بجلی کی تقسیم اور ریکوری کرنے والی کمپنیوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی(میپکو) کی ریکوری 100فیصد، فیصل آباد الیکٹرک پاور کمپنی (فیسکو) کی ریکوری 100، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کی ریکوری 98.2 فیصد ، گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی کی ریکوری 98 فیصد اور وفاقی دار الحکومت کی اسلام آباد الیکٹرک پاور کمپنی (آئیسکو) میں 89 فیصد ریکوری ہوتی ہے۔
دیگر صوبوں کی بجلی کمپنیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ بجلی بلوں کی ریکوری کے ہوالے سے حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی (حیسکو) میں 73 فیصد، سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) کی ریکوری 58 فیصد، بلوچستان میں بجلی فرایم کرنے والی کوئٹہ الیکٹرک پاور کمپنی (کیسکو) میں ریکوری صرف 33فیصد جبکہ خیبر پختونخوا میں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) میں 87.3 فیصد ریکوری ہوتی ہے۔
کے الیکٹرک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کے پاس بجلی کی اپنے پلانٹس سے پیداواری صلاحیت 2093 میگاواٹ ہے، آئی پی پیز سے ان کو 363 میگاواٹ بجلی مل رہی ہے جبکہ 650 میگاواٹ بجلی وفاق سے ان کو مل رہی ہے اگر وفاق کے الیکٹرک کو بجلی نہ بھی دے تو ان کے اپنے سسٹم میں اتنی بجلی موجود ہے کہ وہ اس کو استعمال کریں تو ضرورت کو پورا کر سکیں، وہ وفاق سے سستی بجلی لیتے ہیں مگر اپنی مہنگی بجلی پیدا نہیں کرتے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وفاق سے ملنے والی بجلی سے کے الیکٹرک بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھا رہی ہے اور اس سے منافع کما رہی ہے، اگر وفاق کے الیکٹرک کو 650 میگا واٹ نہ بھی دے تو بھی شہر میں لوڈ شیڈنگ صفر ہونی چاہیے۔
کے الیکٹرک کے حوالے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوئی سدرن سے ان کو 200 ایم سی ایف ڈی ڈی گیس بھی دے رہے ہیں ہم تیل سے بجلی پیدا کرتے ہیں، جبکہ وہ گیس سے سستی بجلی بنا رہےہیں۔
کے الیکٹرک کے واجبات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کمپنی سے اس وقت تک 58 ارب روپے کے واجبات ہیں ، جس میں کمپنی نے این ٹی ڈی سی (نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی) کے 32 ارب روپے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے 26 ارب روپے اور پی ایس او (پاکستان اسٹیٹ آئل) کے تین ارب روپے دینے ہیں، دوسری جانب آئل اینڈ فیول کے فرق کی مد میں وفاقی حکومت سالانہ 30 ارب روپے ادا کرتے ہیں، یہ ایک ایسا خرچہ ہے جو 2008 میں نجکاری کے ترمیمی معاہدے میں شامل کیا گیا، یہ پہلے موجود نہیں تھے،یہ دیکھنا ہو گا کہ کن کے مفادات کا تحفظ کیا گیا۔
وفاقی وزیر نے کے الیکٹرک کی نجکاری کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ 14 نومبر 2005 کو کمپنی کی پہلی نجکاری ہوئی جب اس کے 71.5 فیصد شئیر سعودی عرب کی الجماعیہ گروپ کو منتقل کیے گئے، 13 اپریل 2009 کو اس کی نجکاری کے معاہدے میں ترمیم کی گئی جس کے مطابق الجماعیہ گروپ نے دبئی کے الابراج گروپ کو اپنے شیئر فروخت کر دیئے.
انہوں نے کہا کہ یہ حالات گزشتہ 15سال کے دوران حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث پیدا ہوئے، اس مجرمانہ غفلت کا خمیازہ کراچی سے گلگت تک عوام بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بجلی کی ترسیل کے نظام میں گزشتہ 2سال میں نمایاں بہتری آئی، خیبر پختونخوا، بلوچستان میں زیادہ بجلی دی جارہی ہے۔
|