نقطہ نظر

ٹانگیں نہیں، پر ثابت قدمی کا جواب نہیں

اگر معذوری آپ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے نہ دے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ذہنی طور پر شکست کھا چکے ہیں۔

"زندگی ویسی نہیں ہوتی، جیسی ہم سجھتے ہیں۔ ایک حادثے نے میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دی۔ اب میں کبھی اپنا ماضی واپس نہیں لا سکتا، لیکن اپنا مستقبل ضرور بنا سکتا ہوں۔" یہ الفاظ وہیل چیئر پر بیٹھے ڈیوڈ کے ہیں۔

ایک لحظے کے لیے ایک افسردہ سی خاموشی پھیل گئی۔ میں ڈیوڈ سے اپنی افسردگی چھپانے میں ناکام ہوں، جنہوں نے 2006 میں اسکول جاتے ہوئے ایک ٹرین حادثے میں اپنی ٹانگیں گنوا دیں تھیں۔

"میں اسکول جا رہا تھا، اور یہ سوچے بغیر پٹڑی کراس کر رہا تھا کہ ٹرین بالکل نزدیک تھی۔ لوگ چِلا رہے تھے لیکن میں نے سوچا کہ میں پار کر لوں گا۔ پھر اچانک میرا پیر پٹڑی میں پھنس گیا اور میں گر گیا۔ میرے سر میں چوٹ آئی اور میں بے ہوش ہوگیا۔ وہ میری زندگی کا سب سے برا دن تھا۔"

زندگی تباہ کر دینے والے ایسے حادثے ہمارے معاشرے میں غیر معمولی نہیں ہیں۔ ہر جگہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس سنانے کے لیے بہت سی کہانیاں موجود ہیں۔ میں نے ڈیوڈ کی کہانی فیس بک پر دیکھی تھی، جہاں میں نے انہیں نوکری اور ٹیکس استثنیٰ کی درخواستیں دیتے دیکھا تھا۔

پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے

میں نے ان سے رابطہ کیا اور انٹرویو کے لیے اجازت چاہی۔ انہوں نے خوشی خوشی حامی بھرتے ہوئے مجھے اپنے گھر کا پتہ اور نمبر دے دیا۔

ڈیوڈ کراچی کے غریب علاقے ڈرگ روڈ میں اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتے ہیں۔ میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ کچن کی الماریاں خالی ہیں، جن سے اس گھرانے کی جھیلی گئی پریشانیوں کا اندازہ ہو رہا تھا۔

علیک سلیک کے بعد ہماری گفتگو شروع ہوئی۔ بات چیت کے دوران ان کی والدہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائیں۔

غم سے نڈھال ماں کہنے لگیں، "مجھے اب بھی یاد ہے جب کچھ لوگوں نے مجھے میرے بیٹے کی کتابیں اور بیگ لا کر دیا۔ میں اسی وقت بے ہوش ہوگئی تھی، میں سوچ رہی تھی کہ ڈیوڈ نے مجھ سے اپنی ٹانگوں کے بارے میں کچھ پوچھا تو میں کیا کہوں گی۔"

وہ کہتی ہیں کہ جب تک ڈیوڈ مکمل طور پر ہوش نہیں آیا، تب تک وہ یہ سوچ کر پریشان رہیں۔ ان کے مطابق "ڈیوڈ نے مجھے دیکھا اور کہا کہ جو ہونا تھا، ہوگیا، اب آگے بڑھنا چاہیے۔"

"میں نے آگے بڑھنا پسند کیا۔ میں نے اس وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے ہی اپنے کئی خواب پورے کیے۔ ایک سال کے بعد میں نے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کی، اور انٹر پاس کیا۔ میں نے یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھیں تاکہ جان سکوں کہ معذور لوگ اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ میں نے کئی لوگوں سے آن لائن رابطہ کیا، اور آخر کار اپنا یوٹیوب چینل بنایا۔ میری ہمت افزاء ویڈیو 2 دن کے اندر 3000 لوگوں نے دیکھی، اور یہ میری بڑی کامیابی تھی۔

مزید پڑھیے: معذور پاکستانی لڑکی کی اسکی ریس میں شرکت

"خوش قسمتی سے میں کئی لوگوں کے لیے ایک متاثر کن شخصیت بن چکا ہوں۔ میں اکثر ان لوگوں سے ملتا ہوں جو معذور ہیں، لیکن ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ انہیں متاثر کرنے کے لیے میرے شکر گذار ہیں۔ میں نے کچھ کمپیوٹر کورسز کیے کیونکہ میں ہمیشہ سے ایک کمپیوٹر ایکسپرٹ بننا چاہتا تھا۔ میں نے کمپیوٹر نیٹورکنگ میں CCNA، Network Plus، اور دیگر کورسز کر رکھے ہیں۔"

ڈیوڈ سینٹ جانز اسکول میں ایک ریسیپشنسٹ ہیں۔ مجھے حیرانگی ہوئی کہ وہ کافی ایتھلیٹک قسم کے ہیں۔

"اپنی معذوری کے بعد میں نے ذہنی دباؤ کم کرنے کے لیے کھیلنا شروع کیا اور جلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ میں باسکٹ بال کا ایک اچھا کھلاڑی ہوں۔ میں نے سوشل میڈیا پر اپنی باسکٹ بال کی ویڈیوز ڈالیں، جنہیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ پھر میں نے انٹرنیشنل وہیل چیئر باسکٹ بال فیڈریشن سے بھی عالمی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے رابطہ کیا، لیکن بنیادی مسئلہ اپنے ملک میں اسپانسرز کی کمی کا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس کھیل کو پاکستان میں پذیرائی نہیں ملتی۔ میں عام طور پر اپنے کام کی جگہ پر کھیلتا ہوں تاکہ اپنی تکنیک بہتر بنا سکوں۔"

جب ان کی والدہ سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بچے کے لیے وہیل چیئر خریدتے وقت کیسا محسوس کر رہی تھیں، تو انہوں نے کہا، "یہ ناقابلِ بیان ہے۔ صرف ایک ماں ہی میرا درد سمجھ سکتی ہے۔" لیکن اب وہ اپنے بیٹے پر فخر بھی محسوس کرتی ہیں، کیونکہ وہ مجبور بننے کے بجائے عزت دار زندگی گزارتے ہوئے اپنے خاندان کی معاونت کر رہے ہیں۔

ڈیوڈ جان نے اپنی زندگی میں کئی مشکلات دیکھی ہیں، لیکن انہوں نے مشکلات سے باہر نکلنے، اور اپنی زندگی کا کنٹرول واپس حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

جانیے: ایورسٹ سر کرنے والی پہلی معذور خاتون

انہوں نے اپنی زندگی کے مشکل حالات میں کتنی جرات کا مظاہرہ کیا ہوگا، اس کا اندازہ انٹرویو لیتے ہوئے بخوبی ہوگیا۔ وہ خدا پر پکا یقین رکھتے ہیں، اور انہوں نے بتایا کہ ہر مشکل وقت میں انہوں نے خدا سے مدد طلب کی، جس نے انہیں کبھی بھی ناامید نہیں کیا۔

اپنے جیسے دیگر افراد کے لیے ان کے آخری الفاظ یہ تھے:

"اگر معذوری آپ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے نہ دے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ذہنی طور پر شکست کھا چکے ہیں۔ اور یہ معذوری کی بدترین قسم ہے۔ مشکلات میں خوش قسمتی تلاش کریں، اور آپ کا آدھا کام ہوگیا۔"

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

انگلش میں پڑھیں۔

حماد شکیل

حماد شکیل فوٹوگرافر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔