پاکستان

'سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت نہیں کرسکتی'

آئین میں تمام عدالتوں کی حدود تعینات کردی ہے جبکہ 21ویں ترمیم میں پی اے اے کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے، اٹارنی جنرل۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پیر کے روز سپریم کورٹ کو کہا کہ اس کے پاس فوجی عدالتوں کو چیلنج کرنے کی درخواستوں کی سماعت کا اختیار نہیں، یہ کورٹس مسلح افواج کی سول حکومت کی مدد جاری رکھنے تک کام کرسکتی ہیں۔

متعدد درخواست گزاروں کو جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے کلاز 2،3 اور 4 میں ترامیم کے بعد آئین میں سپریم کورٹ کے پاس سے یہ اختیار لے لیا ہے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے مسلح افواج کو دیے گئے احکامات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں17 رکنی فل کورٹ بنچ 18ویں ترمیم کے تحت ججوں کی تعیناتی اور 21ویں ترمیم کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کی درخواستیں سن رہا ہے۔

اٹارنی جنرل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 199(3) کے تحت ہائی کورٹس ملٹری کورٹس میں جاری ٹرائلز کا جائزہ نہیں لے سکتیں، عدالتیں ان افراد پر احکامات جاری نہیں کرسکتیں جن کے ٹرائل پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت چل رہے ہیں یا جن کا تعلق مسلح افواج سے رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی دشمن غیر ملکی کو پکڑا جاتا ہے تو اس کا مقدمہ کسی سول کورٹ میں نہیں چلے گا بلکہ اسے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے لوگوں کے پاس ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی اختیار نہیں۔

اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں تمام عدالتوں کی حدود تعینات کردی ہے جبکہ 21ویں ترمیم میں پی اے اے کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔