ایک موسمی مسلمان کا ماہِ رمضان
لیجیے ماہ رمضان آچکا ہے۔ اب آپ کو مسجدوں میں وہ بھی نظر آئیں گے، جو کبھی کبھی کسی جنازے میں یا عید پر نظر آتے تھے۔ داڑھیاں بڑھنے لگتی ہیں، کپڑوں کے رنگ ڈھنگ تبدیل ہونے لگتے ہیں، اور کچھ دوست تو ساتھ میں نماز کی ٹوپی بھی رکھنے لگتے ہیں۔ بھئی اس میں برا بھی کیا ہے، اگر سارا سال نماز نہیں پڑھی تو اب بھی نہ پڑھیں کیا، اور مسجد تو ہے ہی خدا کا گھر، خدا جب توفیق دے، جب چاہے بلا لے۔
میں خود بھی ایک موسمی سا مسلمان ہوں، مذہب کی بحثوں میں دل کھول کر حصہ لیتا ہوں، نماز کہیں بھی پڑھ لوں لیکن چندہ اپنے فرقے کی مسجد کو ہی دیتا ہوں، مسجد اور مولوی کی سیاست میں کوئی دل چسپی نہیں لیکن پھر بھی نمازِ جمعہ کے لمبے خطبے اور نمازِ عید کے لمبے انتظار پر اپنا واضح مؤقف رکھتا ہوں۔
ہماری مذہب سے دلچسپی کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روز گھر میں نماز پڑھ رہے تھے کہ میرے ایک معصوم بھانجے نے دیکھ لیا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی یعنی میرے بڑے بھانجے کو بلایا۔ دونوں نے اس طرح کا منظر پہلی بار دیکھا تھا۔ ظالموں نے شور مچا دیا، "امی۔۔۔ امی۔۔۔ امی۔۔۔ نانی۔۔۔ نانی۔۔۔ ماموں نماز پڑھ رہے ہیں"۔
تصاویر: دنیا پر چھائی ہیں رمضان کی برکتیں
بچوں کے اس طرح بے اختیار چلانے پر مجھے اندازہ ہوا کہ کبھی کبھار انسان کوئی ایسا انہونا کام کرے تو قریبی دوستوں کی حیرانی چھپائے نہیں چھپتی۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی سخت بیماری کے عذر کے بغیر کبھی کوئی روزہ چھوڑا ہو۔ روزوں میں فجر کی نماز میں سستی بے شمار اور بے حساب کھانا کھانے کا لازمی نتیجہ ہو سکتا ہے ورنہ روزوں میں نماز چھوڑنے کے ہم ذرا بھی روادار نہیں۔ اور نماز تراویح تو ویسے بھی کام پر جانے والے یا ملازمت پیشہ افراد کے لیے ذرا مشکل ہو جاتیں ہیں۔ ایک تو مولوی صاحبان 8 اور 20 کے مسئلے کو حل نہیں کر پائے، ویسے بھی قرآن شریف تو ہم آفس کے کمپیوٹر پر بھی جا کر پڑھ ہی لیتے ہیں۔
ماہ رمضان کی پسندیدہ عبادتوں میں اگر افطاری کا تذکرہ نہ کیا جائے، تو سارے تذکرے ادھورے ہیں۔ کہاں پکوڑے کھانے کے لیے ساون میاں کا انتظار کرنا پڑتا تھا، اب ہر روز پکوڑے اور ہر جگہ پکوڑے۔ سموسے ہم شوق سے کھاتے نہیں کیونکہ ان میں گھی بہت استعمال ہوتا ہے۔ اچھی فروٹ چاٹ کے ذکر کے بغیر افطاری ادھوری ہے اور آج کل آموں کے موسم میں پیلے رنگ کا چھٹا سا لگا ہو تو سیب، کیلوں کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو میرے روزے کا زیادہ تر ثواب تو افطاری بنانے والے لے جاتے ہیں۔
فراز نے کہا تھا کہ:
تیری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں
ایسے ہی افطاری کے لمحات وصالِ جانفزا کی طرح گذر جاتے ہیں، اور فراق جانگسل کا سا روزہ جو اس ملک میں جہاں میں بستا ہوں، 21 گھنٹے پر مشتمل ہے۔ جب جان پر گذرتا ہے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ موسم ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی ضبط کی رسی میں بندھے ہوئے لوگ اللہ کی رسی سے جڑے رہتے ہیں۔
تصاویر: رمضان المبارک کی پہلی تراویح
میں سارا سال اپنے من کی موج میں زندگی گذارتا ہوں، اور ماہ رمضان کے آتے ہی اس روانی سے کہتا ہوں ذرا رک، حساب کرنے دے، کیا زندگی میں اپنی خواہشوں پر مجھے اختیار ہے کہ نہیں؟ سوچنے دے کہ کیا محسن کی نوازشوں کا حساب دے پائیں گے؟
میرے لیے ماہ رمضان پچھلے سال سے گناہوں سے معافی کا موسم ہے، نئے سال کے لیے اپنے بدن اور خواہش پر کاٹھی ڈالنے کا نام ہے
ایک سال کی میل اتار پھیکنے اور پھر سے جلا پانے کا مہینہ۔
ہاں میں ایک موسمی مسلمان کی طرح اس مہینے کو ایک اچھے مسلمان کی طرح گذارنے کی کوشش کروں گا۔ کتنے ہوں گے جو اس ماہ کی خوشبو سے آنے والے مہینے مہکائے رکھیں گے، اور مجھ ایسے کئی عید کے ساتھ ہی اس موسم کے سارے رنگ اتار پھینکیں گے۔
اتنی دور سڑک پر کیوں دیکھیں، اس موسم میں جیئیں، اور روزوں کے رنگ میں رنگے جائیں، صبر، استقامت، استغفار، اپنا کر رحمت، بخشش، اور نوازشوں کے حقدار ٹھہریں، اور ضروری نہیں کہ اس موسم کے گزرتے ہی پھولوں پتوں کی طرح رنگ تبدیل کر ہی لیا جائے۔ کیا سارا سال ایسا ہی نہیں رہا جا سکتا جیسا ہم ماہِ رمضان میں رہتے ہیں؟ موسمی مسلمان کا سدابہار مسلمان بننا کیا اتنا ہی مشکل ہے؟
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔