وادیٔ سوات: تاریخ و تہذیب کا گہوارہ
تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ ’’سوات‘‘ گندھارا تہذیب کے انتہائی اہم مراکز میں سے ایک تھا۔ نیز یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ سوات کی گود میں گندھارا تہذیب کے علاوہ بھی دیگر کئی تہذیبوں نے پرورش پائی ہے۔
ہندوؤں کی مقدس شخصیت مہاراجہ رام چندر جی نے سوات ہی کے ایلم پہاڑ میں بن باس کرکے اسے ہندومت کے پیروکاروں کے لئے مقدس بنا یا۔
کہا جاتا ہے کہ ایلم پہاڑی کی عظمت اور تقدس کی روایات زرتشتیوں ، پارسیوں اور یونانیوں کی کتب میں بھی ملتی ہیں۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’رگ وید‘‘ میں یہاں بہنے والے دریا کو ’’سواستو‘‘کہا گیا ہے۔
یہ پارس کے بادشاہ دارا اول (Darius I) کا ایک صوبہ رہ چکا ہے، جسے 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے فتح کیا۔ 305 قبل مسیح میں یہ ہندوستان کے ماوریان خاندان کے قبضہ میں آیا۔ لگ بھگ پچپن سال بعد پارتھیا قوم نے مذکورہ علاقہ پر دست تصرف دراز کیا۔
پہلی صدی عیسوی میں گندھارا تہذیب کشانا (Kushana) کے زیر نگیں آئی جو کہ وسطی ایشیاء کے خانہ بدوش تھے۔
ساتویں صدی عیسوی میں سوات کے علاقہ سے ’’پدما سمبھاوا‘‘ (بدھا ثانی) تبت کے لیے نکل پڑے تھے۔ ان ادوار میں مشرقی ایشیائی بدھ مت کا اصل ذریعہ ہوتے ہوئے سوات کا علاقہ ایک مقدس زمین تصور کیا جاتا تھا اور اس کی زیارت کے لیے تبت، چین اور دوسری جگہوں سے زائرین باقاعدہ طور پر حاضری دینے آیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر لوکا ماریا جو کہ مشہور اطالوی ماہر آثار قدیمہ ہیں۔ انھوں نے ’’اٹالین آرکیالوجکل مشن‘‘ کے لیے خدمات سرا نجام دیتے ہوئے وادیٔ سوات میں ستائیس سال گزارے ہیں۔ انھیں موجودہ دور میں اودھیانہ (سوات کا پرانا نام) کا سب سے مستند عالم اور محقق مانا جاتا ہے۔
سوات کے آثار قدیمہ کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ورثہ عظیم، وسیع اور حیرت انگیز ہے۔’’اس کی درجہ بندی مشکل ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کے پچاس اہم ترین آثار قدیمہ میں سے ایک ہیں۔ قدیم کتب اور چینی ریکارڈ ان میں سے چند کی صاف وضاحت کرتے ہیں۔‘‘
آرکیالوجی اینڈ میوزیم گورنمنٹ آف خیبر پختون خوا کے سبکدوش ڈائیریکٹر پروفیسر شاہ نذر خان کا کہنا ہے کہ ’’اودھیانہ کو گندھارا کا حصہ مانا جاتا ہے۔ بعض محققین کی رائے میں اودھیانہ ایک علیحدہ سلطنت تھا۔ اس وادی کے جنت نظیر ہونے کے علاوہ اس کے بدھ مت کے قدیم آثار بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسٹوپے، خانقاہیں، رہائشی عمارات، قلعے اور بڑی تعداد میں Rock curvings وادی میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔‘‘
وادیٔ سوات میں یہ آثار آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں مگر یہاں کے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو بھی ان کی اہمیت کا سرے سے اندازہ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق سوات میں اب تک دس فی صد آثار کو بھی دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ سوات میں مختلف جگہوں سے نکلنے والے قیمتی آثار جن میں بدھا کے مجسمے، سکے، اس وقت کے برتن، زیورات اوردیگراشیاء شامل ہیں، کو پہلے پہل سیدو شریف عجائب گھر میں رکھا جاتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے رکا ہوا ہے۔
موضع جہان آباد منگلور سوات میں چٹان میں کندہ کیا ہوا دنیا کا دوسرا بڑا مجسمہ ہے جسے طالبان دور میں ناتلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ گیارہ اور 23 ستمبر دو ہزار سات کو اس کے سر کو بارودی مواد سے اڑانے کی کوشش کی گئی جسے بعد میں اٹالین مشن نے مزید خراب ہونے سے بچانے کی خاطر کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ جہاں بھی سوات کے طول و عرض میں بدھ مت دور کے آثار بکھرے پڑے ہیں، ان میں چند ایک اٹالین مشن کی نگرانی میں ہیں اور باقی کو حالات کی ستم ظریفی کا سامنا ہے۔ زیادہ تر میں اسمگلروں کی غیر قانونی کھدائیاں جاری ہیں، جب کہ باقی ماندہ کو بچے، بوڑھے اور جوان ’’ثواب‘‘ حاصل کرنے کی غرض سے پتھر مارتے ہیں اور اس پر گندگی ڈالتے ہیں۔
اس حوالہ سے سوات کے نوجوان محقق فضل خالق جنھوں نے سوات کے آثار قدیمہ پر اپنے ایک تحقیقی مقالہ "The Uddiyana Kingdom: the forgotten Holy Land Of Swat"کو کتابی شکل دی ہے، کہتے ہیں کہ سوات کے آثار قدیمہ کو نہ صرف عام عوام سے خطرہ ہے بلکہ ان کی زبوں حالی اور انھیں اس حالت تک پہنچانے میں محکمۂ آثار قدیمہ برابر کا شریک ہے۔
’’عوام کی غلط سمت میں رہنمائی کی گئی ہے۔ اس لیے وہ ان آثار کو پتھر وغیرہ مارتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن شریف کے پارہ نمبر چھ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے برے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔‘‘
فضل خالق کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ یہاں پر دو ڈھائی سو اسمگلر گروپ ان آثار کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی خاطر ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے ساتھ حکومتی اور عوامی دونوں طرح کی مدد بھی حاصل ہےجب تک حکومتی اہل کار اس عمل کا سختی سے نوٹس نہیں لیتے، اسمگلروں کو پکڑا نہیں جاتا، ان کے معاون عناصر کو سزا نہیں دی جاتی، تب تک ان آثار کو تباہ ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔‘‘
ان آثارکا ایک عرصہ سے مطالعہ کرنے والے ماہر منہاج الدین المعروف بابا اس حوالے سے کافی تشویش میں ہیں۔ ان کے مطابق’’سوات کے کئی علاقوں بریکوٹ، پنجی گرام، کنجر کوٹو، ننگریال، پانڑ، کوکاریٔ،بالی گرام، کبل، خوازہ خیلہ، مٹہ، شوخ دڑہ حتی کہ گل کدہ (جوکہ حکومتی تحویل میں لیا گیا علاقہ ہے) میں غیر قانونی کھدائیاں آج بھی جاری ہیں۔اس کے علاوہ بڑے بڑے آثارقدیمہ کے مراکزجن میں کوٹہ ابوہا، شموزو، جلالہ، گاڑوڈاگئی، بنجوٹ اور تلیگرام کے علاقے شامل ہیں، میں بھی بڑے پیمانہ پر غیرقانونی کھدائیاں ہو رہی ہیں۔ ان جگہوں سے قیمتی اشیاء نکالی جاتی ہیں جو کہ تھائی لینڈ، جاپان ، امریکہ اوریوروپی ممالک اسمگل کی جاتی ہیں۔ اس غیر قانونی کام میں محکمۂ آثار قدیمہ، مقامی پولیس اور بہت سے حکومتی ادارے اور مقامی بااثر سیاسی شخصیات تک شامل ہیں۔‘‘
منہاج کا مزید کہنا ہے کہ ’’یہ آثار سوات کا قیمتی اثاثہ ہیں مگر بدقسمتی سے اس طرف حکومتی ادارے مسلسل غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘‘
اس ضمن میں سواستو آرٹ اینڈ کلچر ایسوسی ایشن کے روح رواں عثمان اولس یارؔ بھی کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ عثمان اولس یارؔ پشتون بیلٹ پر جہاں بھی تہذیبی وثقافتی کام ہوتا ہے، وہاں پیش پیش ہوتے ہیں۔
ان کے بقول سوات میں آثار قدیمہ کی تباہی کا ذمہ دار محکمۂ آثار قدیمہ ہے۔’’آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے جتنے ادارے سوات میں کام کرتے ہیں، اُن سب سے اِن آثار کو خطرہ ہے۔ سوات میں جتنے آثار ہیں، چاہے وہ کھنڈرات ہوں، سوات کا اکلوتا عجائب گھر ہو یا مجسمے وغیرہ ہوں، ان کی حفاظت اور بحالی کے لیے مذکورہ ادارے اٹالین مشن کے رحم و کرم پر ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج تک محکمۂ آثار قدیمہ نے سوات میں ایک پیسے کا کام بھی نہیں کیا ہے۔ سوات عجائب گھر کو ہی لے لیں۔ اٹالین مشن نے اسے کتنے زبردست طریقے سے تیار کیا ہے، مگر محکمۂ آثار قدیمہ نے اس پر جو گیٹ لگایا ہے وہ کسی طویلے پر بھی نہیں لگایا جاسکتا۔‘‘
سوات کے آثارِقدیمہ کے بچاؤ اور ان کی مسلسل تباہی کے بارے میں جب مقامی محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر فیض الرحمان سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’’سال دو ہزار بارہ کو املوک درہ سائٹ (تحصیل بریکوٹ سوات) میں غیر قانونی کھدائی کے دوران میں چند اسمگلروں کو پکڑا گیا تھا، ان سے ’’بدھ ستوا‘‘ تک برآمد کیا گیا تھا جسے بعد میں سوات میوزیم کا حصہ بنایا گیا۔ ان اسمگلروں کو بعد میں معمولی سزا اور جرمانہ کے بعد چھوڑا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اسمگلروں اور ان کے معاونین کے لیے ٹھیک ٹھاک قانون سازی کرے۔
تصاویر : امجد علی شہاب