پکوان کہانی: پکوڑا
رمضان، بارش، گرما کی تعطیلات اور پکوڑے، یہ میری چند پسندیدہ اشیاء میں سے ایک ہیں۔
پکوڑوں اور رمضان کا وہی تعلق ہے جو بارش اور پکوڑوں کا، اور چونکہ رواں برس رمضان کا آغاز مون سون کے سیزن میں ہورہا ہے، تو میں اس دوہری خوشی کا اظہار کیسے کروں۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ موسم میری خوشی کا باعث ہے یا بچپن میں افطار کے وقت پکوڑے کھانے کے مزے سے جڑی یادیں۔ امی ہمیشہ رمضان کے دوران مغرب کے وقت پکوڑے تیار کرتی تھیں اور ہم بہن بھائی اب کے مقابلے میں چونکہ اس وقت سبزی کے پکوڑوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے امی ابلے ہوئے انڈوں کو کاٹ کر ہمارے لیے پکوڑے تیار کیا کرتی تھیں۔
انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا پکوڑوں کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے "انڈین پکوڑے گوبھی، بینگن، یا دیگر سبزیوں پر مشتمل تیل میں تلے ہوئے چٹ پٹے کیک ہوتے ہیں۔ فریٹو میسٹو ایک اطالوی پکوان ہے جو مکھن سے لتھڑے گوشت، سی فوڈ، اور سبزیوں سے بھرا ہوتا ہے، اور اسے زیتون کے تل میں تلا جاتا ہے۔"
انسائیکلو پیڈیا کے مطابق "سادہ پکوڑے چو پاستا یا خمیر کے آٹے سے بنتے ہیں، اور ان کو ڈیپ فرائی کیا جاتا ہے۔ اس کی دوسری قسم میں مکھن کی تہہ لگے گوشت، سی فوڈ، سبزیوں یا پھل وغیرہ کو ڈیپ فرائی کیا جاتا ہے۔ آخر میں کٹے ہوئے فوڈ کے چھوٹے کیک جیسے امریکا کے جنوبی علاقوں کے کارن فریٹرز کو بھی تلا ہوا پکوان کہا جاتا ہے"۔
لہذا ہم آسانی سے تصور کرسکتے ہیں کہ پکوڑا ایک دیسی تلا ہوا فریٹر (اٹلی کا تلا ہوا پکوان) ہے مگر پکوڑوں کو بیسن سے کیوں تیار کیا جاتا ہے اور برصغیر میں چنوں کے اس آٹے کی کیا اہمیت ہے؟
مینز فیلڈز ورلڈ ڈیٹابیس آف ایگری کلچرل اینڈ ہورٹی کلچرل کراپس 2008 اس کی وضاحت کرتا ہے "دو بنیادی اقسام کے چنے ہوتے ہیں، ایک دیسی جن کے بیج چھوٹے اور گہرے رنگ کے ہوتے ہیں اور ان پر سخت تہہ ہوتی ہے، ان کو عام طور پر برصغیر، ایتھوپیا، میکسیکو اور ایران میں کاشت کیا جاتا ہے۔ چنوں کو آٹا بنانے کے لیے بھی تیار کیا جاتا ہے اور ان کو متعدد سبزیوں پر چڑھانے کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے (جیسے برصغیر کے پکوڑے)۔
"چنوں کو پکا کر ٹھنڈا کر کے سلاد میں ڈال کر کھایا جا سکتا ہے، چولہوں پر پکایا جا سکتا ہے، اور سوپ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے پیس کر آٹے، جسے بیسن بھی کہا جاتا ہے، کی شکل دے جاسکتی ہے، جسے گیند کی شکل دے کر تلا جائے تو فلافل یا پکوڑے سامنے آ جاتے ہیں اور انہیں کھانے کے اوقات سے ہٹ کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چنے اور بنگالی چنوں کو سالن کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، اور برطانیہ کے مقبول ترین پکوانوں میں سے ایک ہے۔"
اگر آپ پاکستان یا شمالی ہندوستان میں پلے بڑھے ہیں تو یقیناً جانتے ہوں گے کہ پکوڑا کیا ہے۔ یہ ایک ایسی دیسی ہلکی پھلی غذا ہے جو سردی ہو یا گرمی ہر گلی کے کونے میں مل جاتی ہے۔ پکوڑا ایک مقبول اسٹریٹ فوڈ ہے مگر مقامی لوگوں کے گھروں میں پکوڑے ایک عام گھریلو ساختہ پکوان بھی ہے۔
بیشتر پنجابی گھروں میں پکوڑے اور آموں کو اسی طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ، جیسے لکھنو میں پکوڑے اور چائے کا وقت۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ موسم بہار وہ وقت ہوتا ہے جب مقامی افراد تلے ہوئے پکوڑے، کچوریوں، پوریوں سمیت ہر قسم کے پکوان (مکھن میں تلے ہوئے یا تلے ہوئے پکوان) سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور مون سون کا لطف لیتے تھے چنانچہ اب یہ بہار اور مون سون سیزن کے خاص پکوان بن چکے ہیں۔
یہ اسٹریٹ فوڈ بن گئے، جو کہ سستے، فوری تیار، اور لذیذ ہوتے ہیں، جبکہ یہ افطار کے وقت بھی ایک لازمی چیز بن گئے جس سے خوب مزہ لیا جاتا ہے۔
برصغیر کے لوگ اپنی حسِ ذائقہ کو تلی ہوئی چیزوں کا عادی بنا چکے ہیں، لہٰذا افطار کے وقت پکوڑا بھی اتنا ہی لازم ہے جتنا کہ کھجور۔ رمضان آئے یا نہ آئے، میرے گھر میں ہر وقت ہی پکوڑوں کے لیے دیوانگی طاری رہتی ہے۔ لذیذ پکوڑوں کی ترکیب اب میرے کچن سے آپ کے کچن کا رخ کر رہی ہے۔
اجزاء
دو کپ بیسن
دو سبز مرچ
دو کٹے ہوئے درمیانے آلو
دو سے تین ابلے ہوئے انڈے
ایک چھوٹا بینگن کٹا ہوا
چھ چائے کے چمچ پالک کے پتے
دھنیے کے پتے
ایک چائے کا چمچ سرخ مرچ پاﺅڈر
ایک چائے کا چمچ اجوائن
ایک چائے کا چمچ سوکھا دھنیہ
ایک چائے کا چمچ زیرہ
بیکنگ پاﺅڈر
نوٹ: پکوڑے کی تیاری کے لیے اپنی پسند کی کسی بھی سبزی کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔
طریقہ کار
تمام اجزاء کو کچھ مقدار میں پانی ڈال کر آپس میں مکس کرلیں، پھر اسے اس وقت تک ڈیپ فرائی کریں جب تک وہ کرکرے اور خستہ نہ ہوجائیں۔
اب چاٹ مصالحے، دہی، چٹنی، یا کیچپ کے ساتھ اس کا مزہ لیں۔
مزید پکوان کہانیوں کے لیے کلک کریں۔
لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔
انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس food_stories@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔