رویتِ ہلال کے تنازع کا حل کیا ہے؟
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، اور ہم سب ہی اپنے اپنے فریج سحر اور افطار کی ضروری اشیاء سے بھرنے میں مصروف ہیں، اور اپنے عید کے کپڑوں کی وقت پر سلائی کے لیے پریشان ہیں۔ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ ہم سب ہی ایک دوسرے سے ایک سوال پوچھتے نظر آتے ہیں، اور وہ ہے:
یار، چاند کب ہے؟
کم علمی پر مبنی میڈیا رپورٹنگ، اور غیر حقیقی باتوں پر فوراً یقین کر لینے والی ہماری ذہنیت کی وجہ سے ہم ہمیشہ ہی مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کو چاند دیکھنے میں ناکامی پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب پشاور کی مسجد قاسم علی خان سے (گذشتہ سال کو چھوڑ کر) ملک کے باقی حصوں سے پہلے ہی رمضان المبارک کے آغاز اور اختتام کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
کچھ لوگ مسجد قاسم علی خان پر الزام لگاتے ہیں تو کچھ لوگ رویتِ ہلال کمیٹی پر، جبکہ کچھ لوگ اس پورے مسئلے سے لاعلم رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنا کچھ وقت نکال چاند کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو ہم جان سکتے ہیں کہ سائنس کی مدد سے ہم اس مسئلے کو آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ مجھ سے پوچھیں، تو یہ مسئلہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔
سورج، زمین، اور چاند کی جیومیٹری
قمری کلینڈر، جو کہ ہجری یا اسلامی کلینڈر بھی کہلاتا ہے، زمین کے گرد چاند کی گردش پر مبنی ہے۔ دو پورے چاندوں کے درمیان 29.5 دن کا وقفہ ہوتا ہے۔ جب چاند زمین اور سورج کے عین درمیان آجاتا ہے، تو اسے چاند کی پیدائش (Conjunction) کہتے ہیں۔
چاند کی پیدائش کے وقت اس پر پڑنے والی سورج کی تمام روشنی واپس منعکس ہوجاتی ہے، اور زمین تک نہیں پہنچ پاتی، اسی لیے اپنی پیدائش کے وقت چاند زمین پر رہنے والے لوگوں کو نظر نہیں آتا، اور مکمل طور پر سیاہ ہوتا ہے۔ چاند کی پیدائش کے بعد گزرنے والا وقت 'چاند کی عمر' کہلاتا ہے۔