ہر رکاوٹ عبور کرتی ساہیوال کی بیٹی
یہ بلاگ ابتدائی طور پر 17 جون 2017 کو شائع ہوا جسے نادیہ نذیر کی وفات کے موقع پر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
ساہیوال کی دختر نادیہ نذیر کو بین الاقوامی چار سو میٹر دوڑ میں پانچ دفعہ کانسی کا میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔
وہ ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود آج بھی اپنے اس شوق کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایتھلیٹ نادیہ نذیر نہ صرف ساہیوال، بلکہ پورے ملک کے لیے فخر کا باعث ہیں۔
ساہیوال کے محلہ فرید گنج سے تعلق رکھنے والی نادیہ نذیر نے سجاگ کو بتایا کہ ان کا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے ہے اور وہ 8 بہن بھائی ہیں۔
اپنے شوق کے بارے میں نادیہ کا کہنا تھا کہ جب وہ چھٹی کلاس کی طالبہ تھیں، تو ایک دن ٹیچر نے کلاس کی تمام لڑکیوں سے دوڑ لگوائی۔ اس میں وہ پہلے نمبر پر آئیں، اور اس دن ابھرنے والا شوق آج بھی انہیں کھینچ کر میدان میں لے جاتا ہے۔
نادیہ نذیر نے بتایا کہ انہیں رکاوٹی دوڑ پسند ہے۔ اس سلسلے میں وہ 8 ممالک، جن میں انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، ہانگ کانگ اور ایران شامل ہیں، کے دورے کر چکی ہیں۔ ان ممالک میں ہونے والے بین الاقوامی چار سو میٹر رکاوٹی دوڑ کے مقابلوں میں پانچ کانسی کے تمغے بھی اپنے نام کر چکی ہیں۔
سال 2007ء میں کراچی میں قومی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں نادیہ نذیر نے دس رکاوٹیں ایک منٹ ایک سیکنڈ میں عبور کر کے نیشنل ریکارڈ قائم کیا، جسے سال 2008ء میں انہوں نے خود ہی توڑ کر نیا ریکارڈ بنا دیا۔
سال 2011ء میں نادیہ کی شادی بہاول نگر میں ہوئی، لیکن شادی کے بعد بھی انہوں نے اپنے اس شوق کو ماند نہیں پڑنے دیا۔
نادیہ نذیر نے بتایا کہ "میرے شوق نوں ویکھدیاں ہوئیاں میرے میاں نے مینوں کھیڈن دی کھلھ دے دتی تے ہن میں دوڑ لاؤندی تے فٹ بال کھیلدی آں۔"
(میرے شوق کو دیکھے ہوئے میرے شوہر نے مجھے کھیلنے کی اجازت دے دی ہے، چنانچہ اب میں دوڑ بھی لگاتی ہوں اور فٹ بال بھی کھیلتی ہوں۔)
شادی کے بعد سال 2013ء میں انہوں نے قومی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں شرکت کی، جہاں 100 میٹر ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور فٹبال میں بیسٹ گولر قرار پائیں۔
سال 2002ء میں ان کی نوکری واپڈا میں ہوگئی تھی اور تاحال وہ واپڈا کی طرف سے کھیل رہی ہیں۔
"میرے والدین نے بھی مجھے بہت سپورٹ کیا۔ جہاں بھی ٹریننگ کیمپ لگتا تھا، میرے والد وہاں میرے ساتھ جاتے تھے۔"
ایک خاتون کھلاڑی کی حیثیت سے پیش آنے والے مسائل کے متعلق نادیہ نذیر کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے کھل کر پریکٹس کرنا ناممکنات میں سے ہے۔
"لوگ ایسی نظروں سے گھور رہے ہوتے ہیں، جیسے ان سے کوئی بہت بڑا جرم سرزد ہو گیا ہو۔ محلے کی خواتین کہتی ہیں کہ میں فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہوں۔"
نادیہ کے مطابق اگر والد اور شوہر کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی ہوتی تو وہ شاید کبھی بھی مردوں کے اس معاشرے میں اپنے شوق کے ساتھ اتنا طویل سفر نہ طے کر پاتیں۔
انہوں نے نہ صرف لوگوں کی باتوں کا مقابلہ کیا بلکہ انہیں اپنے کھیل کی راہ میں حائل بھی نہیں ہونے دیا۔
خواتین کے لیے تربیت اور ٹریننگ کی سہولیات کے متعلق نادیہ نذیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین کا اسپورٹس میں آنا اتنا آسان اور سادہ نہیں ہے۔ کوششیں تو کی جا رہی ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
"سماجی مسائل کے باوجود جو لڑکیاں کھیل کے میدان میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں، ان کے لیے ٹریننگ اور کوچنگ کا انتہائی فقدان ہے۔ تعلیمی اداروں کی سطح پر اس طرح کی ٹریننگ کا نہ تو اہتمام کیا جاتا ہے، اور نہ ہی گراؤنڈ دستیاب ہیں، جہاں پر خواتین کو تربیت دی جا سکے۔'
نادیہ نذیر نے کہا کہ سماجی، معاشی، اور سیاسی سطح پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے، جن سے لڑکیوں کے معاشرتی دباؤ کے باعث کھیلوں میں شرکت نہ کرنے کی حوصلہ شکنی ہو۔
پاکستان میں ایتھلیٹکس میں سیمی رضوان، سائرہ فضل، اور بشریٰ پروین ان کی پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔
ایتھلیٹکس میں نئی آنے والی لڑکیوں کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ کوئی بھی کام شوق کے بغیر نہیں ہوتا۔ محنت اور سچا جذبہ ہی انسان کو مضبوط اور کامیاب بناتا ہے۔
بشکریہ پنجاب لوک سجاگ، ساہیوال۔
الویرا راشد پنجاب لوک سجاگ میں پراجیکٹ منیجر ہیں اور سجاگ ویب سائٹ کے لیے فیچر رائیٹنگ بھی کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔