سانحہ ماڈل ٹاؤن: ایک سال مکمل، ذمہ دار کون؟
لاہور: پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رونما ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاون کو ایک برس مکمل گیا۔
یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستانی عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعہ کے نتیجے میں ملک میں غیر معمولی نوعیت کی سرگرمیاں اور فیصلے کیے گئے۔
مزید پڑھیں : طاہر القادری نے گلو بٹ کو معاف کردیا
17 جون کو ماڈل ٹاون میں قائم منہاج القران سیکریٹریٹ پرعوامی تحریک کے کارکن پولیس سے جھڑپوں میں فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ سےعہدہ واپس لے لیا گیا۔
کارکنوں کو انصاف دلانے کا نعرہ لیےڈاکٹر طاہر القادری بھی وطن واپس آگئے اوراسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے نتیجے میں ماڈل ٹاون واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوئی۔
ایف آئی آر میں وزیراعظم نواز شریف ، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور متعدد وزراء کو نامزد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں : ’شہباز، رانا ثناء سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار نہیں‘
حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا لیکن رپورٹ نقص امن کے خدشے کے پیش نظر منظر عام پر نہ آ سکی۔
عوامی تحریک نے وزیراعلی پنجاب کی بنائی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے ماننے سے انکارکر دیا۔
یہ بھی پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن: وزیر اعلی پنجاب کا بیان ریکارڈ
جے آئی ٹی نے چند پولیس والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ایف آئی آر میں نامزد تمام افراد کو بے گناہ قرار دیا گیا۔
یوں پنجاب کی وزرات قانون کا قلم دان ایک بار پھر رانا ثنااللہ کےسپرد کردیاگیا۔
گزشتہ برس 13 نومبر کو پنجاب حکومت کی ہدایت پر 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ) تشکیل دی گئی تھی،جس کے ممبران میں کوئٹہ پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ، آئی ایس آئی کے کرنل احمد بلال، آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی، ایس ایس پی رانا شہزاد اکبر اور ڈی ایس پی سی آئی اے خالد ابوبکر شامل ہیں۔
تصاویر دیکھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس وقت واقعہ پیش آیا ڈی آئی جی عبدالجبار موقع پر موجود نہیں تھے۔ واقعے کے دوران کانسٹیبل کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو اُس وقت کے ایس پی سیکیورٹی علی سلمان نے اپنے ماتحتوں کو فائرنگ کاحکم دیا جس سے پی اے ٹی کے کچھ کارکن ہلاک ہوئے۔
سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سیکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر قانون کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا ۔
مزید پڑھیں : عوامی تحریک کا پھر احتجاج کا اعلان
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کلین چٹ دیئے جانے پر پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئےملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔
اس موقع پر عوامی تحریک کی طرف سے کچھ مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
اس کیس کو فوجی عدالت میں منتقل کیا جائے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کو شائع کیا جائے۔
ایک نئی ،غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔
چونکہ پولیس ماڈل ٹاؤن سانحے میں ملوث تھی، لہذا اسے جے آئی ٹی کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔
دھرنے کے دوران ہم سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ باہمی معاہدے کے تحت جے آئی ٹی بنائی جائے گی، لیکن جے آئی ٹی بنانے سے پہلے ہمارے تحفظات نہیں سنے گئے۔
جے آئی ٹی کے سربراہ کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن، گولی چلانے کا حکم دینے والے ایس پی کی ضمانت
دوسری جانب سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ایک برس بیت گیا مگر واقعے کی وجہ بننے والے بیریئرز آج بھی اسی جگہ موجود ہیں، علاقے کے لوگ سڑکوں پر لگی ان رکاوٹوں کے باعث شدید مشکلات شکار ہیں ۔
ان تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کے دوران 14 افراد کی ہلاکت ہوئی لیکن آج تک کسی کو انصاف ملا اور نہ کسی قاتل کی نشاندہی ہوسکی ۔