پاکستان

پاکستان، پناہ گزینوں کی دوسری بڑی آبادی کا میزبان

پاکستان اس وقت پندرہ لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کررہا ہے، جو دنیا بھر میں ترکی کے بعد دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔

کراچی: پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان اس وقت پندرہ لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کررہا ہے، جو دنیا بھر میں ترکی کے بعد دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔

واضح رہے کہ ترکی میں شام سے نقل مکانی کرنے والے پندرہ لاکھ نوّے ہزار افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔

پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے قونصل جنرل شاہ احمد سعید نے کہا ’’بڑھتا ہوا تشدد اور ابھرتے ہوئے نئے تنازعات خطرے کی گھنٹی ہیں، جن کی وجہ سے بہت بڑی آبادی کو اپنے گھروں سے نکلنے اور دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ ایک عالمی تباہی ہے، جس پر بین الاقوامی برادری کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

اس موقع پر یہ بھی بتایا گیا کہ شام میں جاری تنازعات نے عالمی سطح پر پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد کو جنم دیا ہے، جبکہ جنوب مغربی ایشیا میں افغان پناہ گزینوں کی حیثیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ طویل عرصے سے پناہ گزین آبادی کے طور پر برقرار ہے۔

واضح رہے کہ افغان پناہ گزینوں کی 95 فیصد آبادی پاکستان اور ایران میں مقیم ہے۔

افغان قونصل جنرل شاہ احمد سعید نے کہا کہ افغان حکومت کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پر ان کی حوصلہ افزائی، مدد اور اعانت فراہم کرے اور ان کی سماجی اور معاشی زندگی کے معمولات کو بحال کرے۔

تاہم افغان سفارتکار نے تسلیم کیا کہ تن تنہا یہ کام کرنا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا ’’ان کی وطن واپسی میں مدد دینے کے لیے ہم نے امداد دہندگان کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ ہم نے پناہ، ملازمت، پینے کا صاف پانی اور زندگی کے لیے پرامن اور محفوظ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔‘‘

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ قونصل جنرل نے رجسٹریشن کارڈ کے ثبوت (پی او آر) کے مسئلے کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا ’’کچھ پناہ گزینوں کے پاس پی او آر کارڈز ہیں، جبکہ دیگر اب تک یہ حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ سرحدی ریاستوں کے وزیرِ مملکت جنرل عبدالقادر بلوچ اور پناہ گزینوں اور وطن واپسی کے افغان وزیر سعید حسین علیمی بالخی کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے تھے، اور عبدالقادر بلوچ نے کہا تھا کہ پی او آر کارڈزپناہ گزینوں کو دیے جائیں گے، تاکہ وہ ان کے فوائد حاصل کرسکیں۔‘‘

پاکستان اور ایران میں افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے، لیکن افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی وجہ سے گزشتہ دہائی کے دوران بہت سے پناہ گزین وطن واپس جاچکے ہیں۔

شاہ احمد سعید نے کہا کہ پناہ گزینوں کی واپسی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے افغان حکومت پاکستانی حکومت کے ساتھ کام کررہی ہے۔

انہوں نے کہا ’’تمام پناہ گزینوں کی افغانستان واپسی تک ہم پاکستان کی مدد چاہتے ہیں۔‘‘

اس موقع پر کراچی کے کمشنر شعیب احمد صدیقی نے پناہ گزینوں کے حقوق کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا ’’پناہ گزینوں کے بارے میں سوچنا ضروری ہے، اس لیے کہ وہ دنیا کے نظام اور عالمی امن کا حصہ ہیں۔ اگر ہم نے انہیں نظرانداز کردیا، تو ان کے اندر مایوسی جنم لے گی، جس سے امن و امان کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔‘‘

یو این ایچ سی آر کراچی کے صاحبزادہ یونس نے کہا کہ معاشرے کے مراعات یافتہ اور غریب طبقے کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جس میں پناہ گزین بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا صرف اس صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ اگر دونوں طبقات کے درمیان مشترکہ چیزوں کو اجاگر کیا جائے۔

اس موقع پر دو افغان پناہ گزینوں نے حاضرین کے سامنے اپنی داستان بیان کی۔

افغانستان کے کندوز صوبے سے تعلق رکھنے والے خیر محمد نے بتایا کہ افغان حکومت نے طالبان کے خلاف لڑائی کے لیے اس وقت بھرتی کرلیا تھا، جبکہ وہ صرف نویں جماعت میں تھے۔

خیر محمد نے پاکستان کے سفر کی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا ’’ہمیں ہماری مرضی کے خلاف ایک خونی جنگ میں دھکیل دیا گیا تھا۔ ہمیں سڑکوں یا شاہراہوں کے ذریعے سفر کی اجازت نہیں تھی، چنانچہ ہم ملک سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑے۔ بہت سے اس دوران ہلاک ہوگئے، اور انہیں وہیں پر دفن کردیا گیا۔ لگ رہا تھا کہ نہ ہماری کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی مقصد۔‘‘

1997ء میں وہ اور ان کا خاندان کراچی کے گڈاپ ٹاؤن میں آباد ہوگئے، جہاں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور انگریزی زبان سیکھی۔

خیر محمد اب حقوق اور قیدیوں کی امداد کی سوسائٹی کے ساتھ بطور مترجم کام کررہے ہیں۔ یہ ادارہ یو این ایچ سی آر کا عملی شراکت دار ہے۔ اس کے علاوہ وہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس اینڈ ٹیکنالوجی (آئی بی اے) پر ہیومن ریسورسز کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ انسان اپنی زندگی کے حالات کو تبدیل کرسکتا ہے۔‘‘