نقطہ نظر

پتنگ بازی کی دلچسپ تاریخ

چین اور کوریا سے ہوتا ہوا پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا، اور وہاں سے برِصغیر پہنچ کر یہاں کے عوام میں مقبول ہوا۔

پتنگ بازی ایک ایسا شغل ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے، ہاں مختلف ملکوں میں اس کے انداز ضرور مختلف ہوں گے۔ پاکستان میں بھی شاید ہی ایسا کوئی علاقہ ہوگا، جہاں پتنگ نہ اڑائی جاتی ہو۔ پاکستان میں تو پتنگ سازی ایک چھوٹی صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے، یہاں تک کہ پاکستان کے گاؤں دیہاتوں میں تو پتنگوں کے میچ رکھے جاتے ہیں، اور ان کی خوب ذوق و شوق سے تیاری کی جاتی ہے، پتنگ کی ڈور کو تیز دھار بنایا جاتا ہے تاکہ پیچ لگتے ہی حریف کی پتنگ کاٹ دی جائے۔

بڑے شہروں میں تو پتنگ، مانجھا، اور چرخی وغیرہ خرید کر اس شوق کو پورا کیا جاتا ہے، جبکہ دیہاتوں میں پتنگ، مانجھا، اور چرخی خود تیار کی جاتی ہیں، اور ان کی تیاری کے بڑے دلچسپ مراحل دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پتنگ کی تیاری تو اس کی شکل و صورت سے واضح ہوجاتی ہے، لیکن پتنگ کو اڑانے والے مانجھے کی تیاری کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ سوتی دھاگے کی ریلیں یا گولا لیا جاتا ہے، اور اسے کسی بھی سہارے یا درختوں کے گرد گھما دیا جاتا ہے، جس طرح بجلی کی تاریں ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک لگائی جاتی ہیں۔

پڑھیے: پتنگ بازی کا بولی وڈ اسٹائل

اب کسی بھی عام قسم کا چاول لے کر اسے ابال لیا جاتا ہے، پھر شیشوں کے ٹکڑے لیے جاتے ہیں، اور اسے باریک کوٹ لیا جاتا ہے۔ جب شیشوں کا سفوف تیار ہوجاتا ہے، تو اسے ابلے ہوئے چاولوں میں ملا دیا جاتا ہے۔ پھر تھوڑا سے کپڑے رنگنے والا رنگ ملا دیا جاتا ہے۔ مانجھے پر زیادہ تر کالا رنگ پسند کیا جاتا ہے۔

اب اسے خوب اچھی طرح مکس کر کے ایک لئی بنالی جاتی ہے، پھر ہاتھوں پر دستانے پہن کر اس لئی کو ہاتھ میں لے کر دھاگے کو اس طرح پکڑا جاتا ہے کہ دھاگہ اس لئی کے بیچوں بیچ آجائے۔ اب جہاں جہاں تک دھاگے باندھے ہوئے ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ چلا جاتا ہے تاکہ تمام باندھے گئے دھاگوں پر یہ لئی اچھی طرح لگ جائے۔

اس مرحلے کے ختم ہونے کے بعد ان دھاگوں کو سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب یہ دھاگے اچھی طرح سوکھ جاتے ہیں تو پھر اسے چرخی پر یا ایک گولے کی شکل میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور جب یہ تیار ہوتا ہے تو اس کی دھار کو چیک کرنے کے لیے اس تیار مانجھے کو کسی دوسرے مانجھے سے ٹکرایا جاتا ہے، اور وہ معمولی سی رگڑ سے دوسرے مانجھے کو کاٹ دیتا ہے۔

پتنگ کے دنیا میں بہت سے نام ہیں، لیکن وطنِ عزیز پاکستان میں زیادہ تر لوگ پتنگ اور گڈی یا گڈے کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں بلاگ لکھنے کے اصل مقصد کی طرف۔ آپ نے یہ سوال تو ضرور سنا ہوگا کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی یا انڈہ، اب ہم سوچتے ہی رہتے ہیں کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں انڈہ پہلے آیا یا مرغی۔ بالکل اسی طرح میں جب پتنگ کو اڑتے یا اڑاتے دیکھتا تھا تو یہ سوال ذہن میں ضرور آتا تھا کہ سب سے پہلے پتنگ کس نے بنائی ہوگی، اور اسے یہ بنانے کی کیا سوجھی ہوگی یا پھر جب پہلی بار پتنگ بنائی گئی ہوگی، تو وہ اسی شکل کی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

جب اس بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کی تو بہت ہی دلچسپ اور حیران کن معلومات میسر آئیں۔

پڑھیے: پیچہ پڑ گیا

تاریخِ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولین تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا تھا، لیکن وہ براہِ راست حملے کا خطرہ مول لینے کے بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی کھودنا پڑے گی، اس لیے اس نے پڑاؤ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کی ٹھانی۔

اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت کی ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے پڑاؤ والے علاقے سے اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اڑتے جاتے ہیں۔ بس یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ لیا، اور اس میں ایک درخت کے چند تنکے باندھ دیے تاکہ اسے ہوا کا دباؤ حاصل ہو سکے جو اس کے اڑنے میں مدد گار ثابت ہو، اور پھر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑا دیا۔

جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا، اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا۔ یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی، جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کے لیے اڑائی گئی تھی۔ پھر قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استعمال کے لیے کی جانے لگی، جس میں فوج کا جاسوسی کا کام بھی تھا۔ اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پیغام رسانی، اور اپنے ساتھیوں کو اپنی پوزیشن بتانے کے لیے پتنگیں اڑائی گئیں، اور حیران کن بات یہ ہے کہ چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ ان پتنگوں سے پہنچائے گئے۔

مزید پڑھیے: کٹی پتنگ

پھر اس کے بعد چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا۔ وہاں بھی ایک جرنیل کی کہانی ملتی ہے، جس کی فوج نے آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا، اور اسے برا شگون سمجھ کر میدانِ جنگ سے منہ موڑ لیا۔ جرنیل نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے سپاہیوں کو بہت سمجھایا بجھایا لیکن وہ مان کر نہ دیے۔ آخر جرنیل نے ایک ترکیب سوچی۔ اس نے ایک بڑی سی سیاہ پتنگ تیار کی، اور اس کی دم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے اڑایا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے، اور اس طرح محض ایک پتنگ کے زور پر جرنیل نے اپنی فوج کا حوصلہ اتنا بلند کر دیا کہ وہ لڑائی جیت گئی۔

فوج کے بعد یہ کارگر نسخہ بدھ راہبوں کے ہاتھ لگا جو بدروحوں کو بھگانے کے لیے عرصہء دراز تک پتنگوں کا استعمال کرتے رہے۔

چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جب پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ جاپان میں ایک سخت قانون نافذ کر دیا گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد، اعٰلی سِول اور فوجی افسران، اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔

مشرقِ بعید سے پتنگ بازی کا مشغلہ کب اور کس طرح برصغیر پاک و ہند پہنچا، اس بارے میں تاریخ کوئی واضح اشارہ نہیں دیتی، البتہ اس ملک میں پتنگ بازی کی اولین دستاویزی شہادتیں مغل دور کی مصوری میں دکھائی دیتی ہیں۔

سولہویں صدی کی ان تصویروں میں اکثر یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے کہ عاشقِ زار اپنے دل کا احوال کاغذ پر لکھ کر ایک پتنگ سے باندھتا ہے، پھر یہ پتنگ ہوا کے دوش پر سوار ہوکر کوچہء محبوب کی فضاؤں میں پہنچتی ہے اور معشوقہء دلنواز کی چھت پر منڈلانے لگتی ہے۔

لیکن گذشتہ ربع صدی کے دوران جس ملک میں یہ تفریح ایک صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے، وہ ہے پاکستان، جہاں اب لاکھوں افراد کا روزگار "گُڈی کاغذ" بانس، دھاگے، اور مانجھے سے وابستہ ہے لیکن اب اس شغل کو بھی کچھ غیر قانونی طریقوں کے استعمال، اور ان سے انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے بعد بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے جس سے بسنت کے موسم کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔

جانیے: لاہوری بسنت… ماضی کا قصّہ

ابھی چند روز پہلے چین کے شہر بیجنگ کے ایکسپو پارک میں ایک عالمی پتنگ میلہ 2015 منعقد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے پتنگ بازی کے شوقین حضرات نے شرکت کر کے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اسی عالمی پتنگ میلے کے حوالے سے اپنے ایک چینی دوست سے بات چیت کے دوران چینیوں کے پتنگ کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ عقائد جاننے کا موقع ملا، کہ چینیوں کا عقیدہ ہے کہ پتنگ جتنی اونچی اڑے گی آپ کی پریشانیاں آپ سے اتنی ہی دور ہوجائیں گی، کسی کی چھت پر کٹی پتنگ گرجائے تو اسے بدشگونی سمجھا جاتا ہے، اور اس پتنگ کو پھاڑ کر جلادیا جاتا ہے۔

ہمارے وطنِ عزیز پاکستان میں بدقسمتی سے اس مشغلے کا کئی غیر قانونی طریقوں کے استعمال کی وجہ سے زوال شروع ہوچکا ہے، اور اب اس پتنگ بازی پر کئی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، جس کی وجہ سے غیر ملکی اب چین کا رخ کرتے ہیں۔ ہر کھیل کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کیا اور کروایا جائے، نہ کہ اس پر پابندی لگادی جائے۔

اگر پاکستان میں بھی پتنگ بازی کے لیے سال میں ایک دفعہ کوئی کھلی جگہ مخصوص کردی جائے اور پتنگ کی ڈور کی حد پیمائش متعین کردی جائے، تو اس کھیل کو، جو اب ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے، نہ صرف بچایا جاسکتا ہے، بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے باعث کشش ہوسکتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے، اور پوری دنیا میں ہماری ثقافت متعارف کروائی جاسکتی ہے۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز کلب کراچی کے صدر ہیں، اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Maq_arshad@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔