نقطہ نظر

ٹھٹہ: عروج و زوال کی تکلیف دہ کہانی

ٹھٹہ ایک زمانے میں علم و ہنر کا مرکز تھا، لیکن اب یہ ویرانی اور اداسیوں کا مرکز ہے۔

ٹھٹہ: عروج و زوال کی تکلیف دہ کہانی

ابوبکر شیخ

ٹھٹہ، جس کے لیے حیدرآباد دکن کے ایک شاعر 'عثمان' نے کہا تھا:

"ننگر ٹھٹہ ہیرے جیسا خوبصورت شہر ہے۔ اس میں دھان کی سبز فصلیں ہیں۔ اس میں کشادہ باغ، ہرن، اور خوبصورت جنگل ہیں۔"

ٹھٹہ کے باغات مشہور تھے، جن میں طرح طرح کے پھل ہوتے تھے، خاص طور پر کھجور اور انار اپنے رنگ اور شیرینی کی وجہ مشہور تھے۔ 'امیر خسرو' (وفات اکتوبر 1325) نے اپنی ایک غزل میں اپنے محبوب کو ٹھٹہ کے پھولوں سے تشبیہ دی ہے۔

'تاریخِ طاہری' کے مصنف میر طاہر محمد تحریر کرتے ہیں کہ: "ٹھٹہ کی بنیاد کسی اچھی ساعت میں پڑی تھی۔ ٹھٹہ شہر میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے 'کوریوں' کے تھے۔" "تھیوناٹ" یہاں 1667 میں آیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:"یہ صوبے کا مشہور شہر ہے، سارے ہندوستان کے اکثر بیوپاری، یہاں بننے والی مختلف اشیاء خریدتے ہیں۔ یہ ملک کی مارکیٹ ہے، یہ شہر تین میل لمبائی اور ڈیڑھ میل چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ شہر مذہبیات، علم لغت، اور علم سیاست کے لیے مشہور ہے۔ شہر میں چار سو سے بھی زائد مدرسے ہیں۔ ٹھٹہ عظیم شہر ہے۔"

'آئینِ اکبری' کے مطابق:"ٹھٹہ ایک آباد بندر ہے، جہاں چھوٹی بڑی ہزاروں کشتیاں کھڑی رہتی ہیں۔"

اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ٹھٹہ کی تاریخ بھول بھلیوں کی طرح ہے، ایسی بھول بھلیاں جہاں ہر موڑ پر ایک حیرت کھڑی ہے۔ کبھی مسکراتی تو کبھی رلاتی۔ لیکن پھر بھی یہاں دیکھنے، سننے اور سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ سیاست کی خونی چالبازیاں، حاکموں کا ہر وقت جنگی جنون میں رہنا، انا کی تسکین کے لیے ہوتی ہوئی جنگیں اور ان کے بدلے میں ہزاروں بے گور و کفن انسانوں کی لاشیں۔

مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ سارا کچھ یہ ہی تھا۔ نہیں۔ یہاں کالج تھے، مصنف تھے، شاعر تھے، موسیقار اور سنگتراش تھے، جن کے علم و تخلیقات، الفاظوں کی رنگینی اور شیرینی، تراش و خراش اور مثبت کارناموں نے 'ٹھٹہ' کو 'ننگر' (بڑا، وسیع، شاہوکار، تونگر) کا اعزاز دے کر "ننگر ٹھٹہ" بنا دیا۔ خوبصورت اور لازوال، صدیوں کے سینوں پر حکومت کرنے کے لیے ایک ایسا شہر جہاں عالم، اکابر، اور علم کے پیاسے کھینچے چلے آتے۔

سرمد کی شہادت کا سانحہ 1659 میں شاہ جہان آباد دہلی میں ہوا لیکن 'سرمد' کو عشق کی دیوانگی کی چنگاری ٹھٹہ کی ان گلیوں میں سے نصیب ہوئی۔ ابوالکلام آزاد اپنی کتاب "حیاتِ سرمد" میں تحریر کرتے ہیں کہ "اس زمانے میں ایرانی سیاح عموماً سندھ سے ہو کر ہندوستان آتے تھے۔ سندھ کے شہروں میں ٹھٹھہ ایک مشہور شہر تھا، جس کو اب نئے جغرافیے میں گمنامی کا خانہ نصیب ہوا ہے۔ ٹھٹھہ کے ان بازاروں میں سرمد نے 'ابھی چند' کی خوبصورت آنکھوں کا سودا کیا اور دنیا تیاگ دی۔

"عشق کی شورش انگیزیاں ہر جگہ یکساں ہیں، ہر عاشق، گو قیس نہ ہو مگر مجنوں ضرور ہوتا ہے۔ دیوانگی کے اس سحر میں (سرمد نے) سندھ کے ریگزاروں سے تلوے گرم کیے اور دھلی جا پہنچا۔" سرمد اور داراشکوہ کی دوستی اور عہدِ عالمگیری کے ذکر کو یہیں چھوڑ کر ٹھٹہ کی گلیوں میں لوٹ چلتے ہیں۔

اب حقیقت یہ ہے کہ ٹھٹہ کی یہ ساری خوبصورتیاں اور عظمتیں اب فقط تاریخ کے صفحات پر حروفوں کی شکل میں رہ گئی ہیں۔ اب تیز دھوپ میں باغات کی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے، چشموں کے ٹھنڈے پانی کی شیرینی، پھلوں کے ذائقے، پھولوں کے رنگ، مدارس میں معلموں کے لیکچر، کپڑے بننے والی کھڈیوں کا ردھم اب فقط تاریخ کی تحریروں میں ہی پڑھا جا سکتا ہے، اور اگر چاہیں تو، 'ماضی' بنے ہوئے ان پلوں کو اپنے ذہن و دل کے آسمان پر، تخلیق کے برش سے تصویروں میں ڈھال کر کچھ پلوں کے لیے خوش ہو لیں۔

موجودہ 'ٹھٹہ' گذرے ہوئے زمانے کے بالکل برعکس ہے۔ ٹوٹے راستے، ذہن کا سکون چھیننے والا گاڑیوں کا شور اور دھواں، گنجان، دماغ چکرا دینے والی گلیاں اور بازار، مدارس ہیں کہ کب کے ویرانی اور بے قدری کی دھوپ سہہ سہہ کر گر چکے ہیں۔ لمبی جستجو کے بعد بھی آپ کو، کپڑے بننے کی 'کھڈی' کے آثار مشکل سے ہی ملیں گے۔

ٹھٹہ کے اس کمال اور زوال کے بیچ والے عرصے کی کہانی سننے اور پڑھنے تعلق رکھتی ہے، تفصیل سے نہ سہی مختصر ہی سہی، لیکن اس میں سوچنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

600 سال تک اپنے اوج کو برقرار رکھنے والے ٹھٹہ کی 'پرتگالیوں' سے پہلی اور خونی ملاقات 1555 میں ہوئی۔ پرتگالیوں سے کیا گیا وعدہ 'مرزا عیسیٰ' نے پورا نہیں کیا، بدلے میں سات سو سپاہیوں کے غصہ کا نشانہ بنا ٹھٹہ۔ 8000 ہزار شہریوں کو قتل کردیا گیا، شہر کو آگ لگا دی گئی اور کروڑوں کی لوٹ مار کی گئی۔ یہ ساری کارروائی انہوں نے بڑے سکون سے کی، اور ملکیت سے اپنے جہاز بھر کر 'گوا' (ہندوستان) روانہ ہوگئے، اور وقت کے حاکم 'طغرل آباد' کے قلعے کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر جلتے ہوئے شہر کے دھوئیں کو دیکھ رہے تھے۔

1696 میں ملک میں طاعون کی وباء پھیلی۔ فقط ٹھٹہ اور اس کے قرب و جوار میں ہزاروں لوگ مرے۔ 1739 میں 'نادرشاہ' جس کی فوج کی تعداد لاکھوں میں تھی، اس نے پندرہ دن تک ٹھٹھہ میں 'میاں نور محمد' کی دعوت کھائی۔ اس وقت کے درباری مؤرخوں نے لکھا تھا کہ: "پھر بھی اناج کی کمی نہیں ہوئی۔" وہ تاریخ جو محلوں کی چھاؤں میں بادشاہوں کو خوش کرنے اور درباروں کو قائم رکھنے کے لیے تحریر کی جاتی ہے، اس کے اپنے معیار ہوتے ہیں، ایسی تحریروں کا قلم، سیاہی، اور کاغذ غریبوں کی ہڈیوں، خون، اور چمڑی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔

ٹھٹھہ کے اس خونی دربار کو اب ہم شاید کبھی بھی نہ ڈھونڈ سکیں، جس کے تخت پر براجمان ہو کر 'نواب اعظم خان' 1718 میں "صوفی شاہ عنایت" کو دھوکے سے اپنی دربار میں بلا کر 'شہید' کرنے کا حکم دیا تھا۔ "ساموئی" (ٹھٹہ میں سومرو دور کی تخت گاہ) میں اب ہم شاید اس جگہ کو بھی نہ ڈھونڈ سکیں جہاں آخری بار 'شہید دولہہ دریاء' نے ٹھٹھہ کے آسمان کو دیکھا تھا۔

ٹھٹھہ کے وہ محلے اور گلیاں، وہ مساجد وہ مدارس جہاں مذہب اور فلسفوں پر بحث و مباحثے ہوتے تھے، جہاں شریعت و طریقت پر سینکڑوں کتابیں تحریر ہوئیں، وہاں اب ویرانی اور خاموشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

ادب، تخلیق، اور زندگی کی مسکراہٹوں کے دیپ کب کے بجھ چکے۔ حال کی بے قدری پر ماتم کرتی ہوئی شہر کے بیچوں بیچ ایک مسجد، مسجد امیر خانی بھی ہے۔ ویران، خاموش، اور خستہ حال، یہ مسجد 1039 میں 'میر ابوالبقاء' نے تعمیر کروائی تھی۔ ان گلیوں سے گزر کر آپ تھوڑا آگے جنوب کی طرف جائیں گے تو 'جامع مسجد شاہجہانی' ہے۔ ایرانی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ، اینٹوں اور رنگوں کے میلاپ کا ایک سحر انگیز مظہر، میناکاری کا ایسا ہنر جسے دیکھ کر روح کو تسکین سی آجائے، گنبدوں پر پچکاری اور رنگوں کی ایسی خوبصورتی جو صدیوں تک زندہ و جاوید رہے۔

جامع مسجد سے آگے جنوب کی طرف 'دابگیر مسجد' کے قدیم آثار ہیں، ایک زمانہ تھا جب یہ 'دابگروں' کے محلے کی آباد اور نہایت خوبصورت مسجد تھی، لیکن اب نہ یہاں کوئی محلہ ہے اور نہ کوئی وعظ کرنے والا، یہ مسجد 997 ھ میں 'خسرو خان چرکس' نے بنوائی تھی۔ خسرو خان ایک علم دوست انسان تھے، انہوں نے ٹھٹھہ کے قرب و جوار میں 360 کے نزدیک مسجدیں، پانی کے تالاب، کنویں اور پل تعمیر کروائے تھے۔ اس مسجد میں ہر جمعہ کو 'مخدوم محمد ھاشم ٹھٹوی' وعظ کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مخدوم عبداللطیف نے اس روایت کو زندہ رکھا۔

ٹھٹھہ شہر کے ماضی کے متعلق اور بھی بہت ساری باتیں اور دکھ ہیں، جن پر کئی صفحات تحریر کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس شہر 'ننگر ٹھٹھہ' کا ایک اور اہم حصہ 'مکلی' ہے، جس کے ذکر کے سوا ٹھٹھہ کا ذکر شاید مکمل نہ ہو۔ تو یہ مکلی ہے، ویران، خاموش اور پرسکون۔ لیکن اس خاموشی کے سینے میں نہ جانے کتنی داستانیں ہیں، جو دردوں کے دیپکوں کی طرح جلتی بجھتی رہتی ہیں۔

'میر علی شیر قانع' نے 1148ھ میں "مکلی نامہ" تحریر کیا۔ وہ مکلی کی خوبصورتی سے اتنے متاثر نظر آتے ہیں کہ بار بار مکلی کے حسن کی بات کر بیٹھتے ہیں۔ آئیے قانع کی تحریر کو دل کی آنکھوں سے پڑھیں: "مکلی پر میلوں اور مجالس کی اپنی خوبصورتی ہے۔ بارش برستی ہے، تو میلے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت غم و غبار، دکھ اور تکلیف کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہوتا۔"

میر علی شیر کی تحریر کے مطابق: "جام نظام کے مقبرہ کے مشرق میں تالاب تھا۔ مرزا عیسیٰ کی رانک کے پاس دکانیں تھیں۔ آس پاس میں سبزہ تھا، اور درخت تھے۔ 'کھنڈسر' کنویں کا پانی شہد جیسا میٹھا تھا، کناروں پر سنیاسی اور جوگیوں کے عبادتی آستان تھے۔" علی شیر قانع نے مکلی کے حسن کی تعریف میں نہ جانے کتنے صفحات تحریر کیے ہیں لیکن موجودہ مکلی ان بتائے ہوئے منظروں سے بالکل مختلف ہے۔

نہ ٹھنڈا اور شیریں پانی دینے والے کنویں اور چشمے ہیں، نہ کوئی سبزہ زار، اور نہ ہی کوئی درختوں کی قطار جو مئی جون کے تپتے دنوں میں آپ کو ٹھنڈی چھاؤں کے کچھہ لمحے دے سکے۔ نہ دوکانیں ہیں اور نہ ہی ان طالبعلموں کی ٹولیاں، جو جمعرات کی شام کو آکر درگاہوں پر دعائیں مانگتے تھے، اب زقوم اور دوسری کانٹے دار جھاڑیوں کے جھنڈ ہیں، جو ویرانی کے احساس کو اور بھی گہرا کر دیتے ہیں۔

مکلی کی ابتدا شمال سے "شیخ جھنڈو پاتنی" کی درگاہ سے ہوتی ہے، اور اس علاقے کو 'ساموئی' بھی کہتے ہیں۔ درگاہ کے مغرب میں سات عورتوں کی قبریں ہیں جنہیں 'ستین جو مقام ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کئی کلومیٹرز میں پھیلی ہوئی مکلی کا اختتام جنوب کی طرف 'طغرل آباد' کے قلعہ سے بھی آگے ہوتا ہے۔ تاریخ کی کئی حقیقتیں، حیرت انگیزیاں، اور افسانے ہیں جو مکلی کی پہاڑی میں پوشیدہ ہیں۔

'مکلی' فقط مزاروں، مقبروں، مسجدوں، اور قبروں کا نام نہیں ہے۔ ان مزاروں کی بنیادوں، اور سنگتراشی سے بنے ہوئے نقش و نگاروں میں ماضی کی تلخ و شیریں حقیقتیں پنہاں ہیں۔ ان تراشے ہوئے کنول کے پھولوں میں، مکلی کی ویران شاموں میں، ٹوٹے ہوئے مندروں کی آہوں میں، اور ٹوٹے ہوئے مقبروں کے گنبدوں میں، ٹھٹہ کے ان دنوں کا حسن چھپا ہوا ہے جب 'ٹھٹہ' خوبصورتی کا دوسرا نام تھا۔

مکلی کے آثاروں کے سینے میں سولہویں صدی کے آخری برسوں کی وہ صبح و شامیں ضرور نقش ہوں گی، جب ٹھٹہ کی قسمت کے ستارے بدلنے لگے تھے۔ یہ اس کے زوال کے ابتدائی دن تھے۔ ٹھٹہ عرش سے آکر فرش پر گرا، اور اس زوال کی کہانی کو مکمل ہونے میں ڈیڑھ سو برس کا عرصہ لگا۔ دریاء میں ریت بھر جانے کی وجہ سے اس کی جو ایک 'بندر' کی حیثیت تھی، وہ ختم ہونے لگی۔ انیسویں صدی کے آخری نصف میں جب "پاٹنجر" یہاں آیا تھا تو ٹھٹہ کے اچھے دن لد چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں: "سارا شہر اداس تھا، آبادی دو ہزار سے بھی کم رہ گئی تھی۔"

دریائے سندھ، جس نے ٹھٹہ کو آباد کیا، اسے خوبصورتیاں اور نام دیا، اس نے اسے برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جس ٹھٹہ کا مقابلہ پیرس سے کیا جاتا تھا، وہ ٹھٹہ وقت کے ظالم قدموں کے نیچے روند دیا گیا، اور دکھ کا ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔

سارے دن کی دوڑ دھوپ کے بعد میں نے ٹھٹہ کے مقامی صحافی حاجن سولنگی سے ٹھٹہ اور مکلی کے برباد ہوتے ہوئے قدیم آثاروں کے متعلق پوچھا تو اس کے چہرے پر کوئی خاص تاثر پیدا نہیں ہوا۔ کہا: "آثاروں کی حالت تو پہلے بھی اچھی نہیں تھی، مگر 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، ہزاروں لوگ اس مکلی کی ٹکری (پہاڑی) پر پناہ لینے آئے تھے، جاتے بھی تو کہاں!؟ اس وقت اس تاریخی ورثے کو بہت نقصان پہنچا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے جانے کے بعد پہنچے ہوئے نقصان کی تلافی کی جاتی، مگر کچھ نہیں کیا گیا۔ پکنک والوں کو بسوں اور ٹرکوں سمیت اندر جانے کی اجازت دے دیتے ہیں، سب کچھ برباد ہو رہا ہے، مگر آج کل جو بربادی کی رفتار ہے، تو 20 یا 30 برس کا عرصہ بہت ہے، کچھ نہیں بچے گا۔"

حاجن نے صحافی ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر کا جیسے غبار نکالا۔ اس کے بعد بھی حاجن سولنگی سے میں نے بہت سارے سوالات کیے، مگر جواب گھوم پھر کر یہ ہی ہوتا کہ اس تاریخی ورثے کو برباد ہونے سے بچانا چاہیے۔

میں نے حاجن اور ان کے دوست صحافیوں سے اجازت لی، باہر سورج ڈوب چکا تھا۔ ٹھٹہ کے آسمان پر ہلکی لالی سی پھیلتی تھی۔ نیچے گاڑیوں کا شور تھا، مگر اندر میں ایک خاموشی تھی جو ویرانوں کی طرح پھیلتی تھی۔ دل کے آنگن سے میں نے ٹھٹہ کی اداس روح کو الوداع کہا، اور چل پڑا۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔