نقطہ نظر

کریئر کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں

طالب علموں اور والدین کو چاہیے کہ وہ کریئر پلاننگ پر زیادہ توجہ دیں تاکہ ناسمجھی میں کہیں غلط شعبے کا انتخاب نہ ہوجائے۔

کریئر انگریزی زبان کا لفظ ہے، اور اس کے بہت سے معنی ہیں۔ لیکن مجھے اس جگہ اس کا ترجمہ ’’طرزِ معاش‘‘ درست اور زیادہ پسند آیا ہے۔ ’’گائیڈنس‘‘ بھی انگریزی میں عام استعمال ہونے لفظ ہے۔ جس کے معنیٰ ’’رہنمائی، ہدایت کے ہیں۔ یعنی ’’طرزِ معاش کے بارے میں رہنمائی۔‘‘

چونکہ پاکستان میں گذشتہ چند سالوں میں طلباء کی یونیورسٹیوں تک رسائی بڑھتی جا رہی ہے، اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اب پہلے سے کہیں زیادہ افراد داخلے لے رہے ہیں، لیکن یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ ان لاکھوں طلباء میں سے صرف کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں، جن کا انتخاب کردہ شعبہ واقعی ان کا پسندیدہ شعبہ بھی ہوتا ہے، نتیجتاً وہ کبھی بھی اس شعبے میں اس کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے، جو اس شعبے کا تقاضہ ہوتا ہے۔

اس چیز سے نمٹنے کے لیے کریئر گائیڈنس کا ہونا بہت ضروری ہے، اور یہ بلاگ اسی حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔

کریئر گائیڈنس کی ضرورت کیا ہے؟

موجودہ دور میں تعلیم کا بنیادی مقصد بچوں کو آسان طریقے سے روزگار کے قابل بنانا ہے، کیونکہ فرد سے افراد، افراد سے خاندان، اور خاندانوں سے قوم وجود میں آتی ہے۔ فرد جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے، جب تک وہ خوشحال نہیں ہوگا، کوئی بھی قوم اور ملک خوشحال نہیں ہوسکتے۔

آج اقوام عالم پر غور کرلیں، آپ کو خوشحال ملکوں کے پیچھے خوشحال افراد ہی نظر آئیں گے۔ سادہ سی بات ہے کہ جب ایک فرد خوشحال ہوجاتا ہے، تو اس کی قوتِ خرید بڑھ جاتی ہے۔ اس کے زیادہ چیزیں خرید سکنے کی وجہ سے معاشرے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں ایک خوشحال شخص کے ساتھ کئی لوگوں کی نوکری لگ جاتی ہے۔ مثلاً ایک کامیاب ڈاکٹر کے ساتھ کمپوڈر، نرس، آفس بوائے، ڈرائیور، چوکیدار، مالی، باورچی، گھر کی ماسی، سوئیپر، وغیرہ کی نوکریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

پڑھیے: تعلیم یا کاروبار

اب کیونکہ معاشرے کے تمام افراد ہی اپنے بچوں کو کامیاب و کامران کرنا چاہتے ہیں، اس ہی لیے وہ سخت محنت کرتے ہیں، اور اپنی استعداد کے مطابق، جبکہ کئی خاندان تو اپنی مالی استعداد سے بڑھ کر ان پر ’’توانائی‘‘ خرچ کرتے ہیں۔

یہاں میں نےلفظ ’’توانائی‘‘ اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ عموماً بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں صرف مالی وسائل کو شمار کیا جاتا ہے، جبکہ روپے پیسے کے علاوہ والدین بے شمار ذہنی اور جسمانی مشقت بھی برداشت کرتے ہیں۔

لیکن عموماً طالب علم جب وہ تعلیم مکمل کرلیتا ہے تو اس کو اس شعبہ میں روزگار نہیںملتا، جس کی اس نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس سے نہ صرف وہ نوجوان بلکہ اس کا خاندان بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور بعض اوقات کئی خوفناک حادثات بھی جنم لیتے ہیں۔ یا روزگار تو مل ہے لیکن بس گزارے جیسا۔ بقول فیض احمد فیض مرحوم

’’وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں‘‘

غلط کریئر کے انتخاب کے نقصانات

غلط کریئر کے انتخاب کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں، اور غلط کریئر کے انتخاب کا نقصان نہ صرف ایک فرد کو ہوتا ہے، بلکہ اس کا نقصان پوری سوسائٹی کو ہوتا ہے۔ سب بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ ڈگری یافتہ بے روزگاروں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

غلط شعبہ کا انتخاب کرنے والے عموماً ذہنی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مایوسی، ڈپریشن، نیند کی کمی جیسے یماریاں بڑھ رہی ہیں، جبکہ بعض اوقات مایوسی اور ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی جیسے تکلیف دہ واقعات بھی پیش آ جاتے ہیں۔

اس لیے طالب علموں اور خاص کر والدین کو چاہیے کہ وہ کریئر پلاننگ پر قدرے زیادہ توجہ دیں تاکہ ناسمجھی میں کہیں غلط شعبے کا انتخاب نہ ہوجائے، جس سے زندگی کے کئی قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں۔

کریئر پلاننگ کا فائدہ کیا ہے؟

ویسے منصوبہ سازی کے ہمیشہ فائدے ہی ہوتے ہیں، لیکن کریئر پلاننگ کے کچھ فائدے جو مجھے سمجھ آئے ہیں، وہ یہ ہیں۔

-درست منصوبہ سازی سے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

-آپ کے پاس ایک پلان کی تیاری کے بعد خودبخود پلان بی، اور پلان سی تیار ہوجاتے ہیں۔

-چونکہ منزل یا ہدف کا تعین ہوچکا ہوتا ہے، اس لیے مایوسی کم ہوتی ہے، اور اس کام میں دل چسپی بڑھ جاتی ہے۔

-وسائل، وقت، سرمائے، اور توانائی کی بچت ہوتی ہے

-چونکہ منصوبہ سازی کے لیے آپ کئی طریقوں سے معلومات حاصل کرتے ہیں، اس لیے آپ فراڈ لوگوں/تعلیمی اداروں سے بچ جاتے ہیں۔

-گول کے تعین سے آپ کا کامیابی تک کا سفر کم ہو جاتا ہے۔

-سوسائٹی کو اپنے شعبے میں زیادہ دلچسپی رکھنے والے قابل افراد میسر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ سب سے اہم قومی وسائل کی بچت ہوتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بہت سے ڈاکٹر، انجینئر اپنے ڈگری مکمل کرنے کے بعد کسی دوسرے شعبہ میں چلے جاتے ہیں۔ مثلا سی ایس ایس کر کے بیورکریسی کا حصہ بن جاتے ہیں یا جیسے آج کل بہت سے ’’ڈاکٹر‘‘ میڈیا پرسن بن چکے ہیں۔

مزید پڑھیے: میڈیکل کوٹہ سسٹم درست اقدام ہے؟

ان کی اس روش سے وہ نہ صرف اپنا کافی سارے وقت ضائع کرتے ہیں، کیونکہ سی ایس ایس کے لیے 14 سالہ تعلیم ہونے کی شرط ہے، جبکہ یہ احباب 18-19 سال کی تعلیم کے بعد جاتے ہیں، جس سے ان کی زندگی کے چار پانچ قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں۔

دوسرا اس سے جو معاشرے کو نقصان ہوتا ہے، وہ یہ کہ ان کی وجہ سےمیڈیکل کالج/یونیورسٹی کی ایک سیٹ ضائع ہوجاتی، جو ان کے بجائے کسی اور شخص کو مل سکتی تھی۔

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ میڈیکل کالجز/یونیورسیٹوں سے ڈاکٹر، انجینیئر بننے کے اخراجات کافی زیادہ ہوتے ہیں، اور سرکاری اداروں میں یہ اخراجات فیسوں سے پورے نہیں ہوتے، لہٰذا یہاں ریاست یہ سرمایہ کاری کرتی ہے تاکہ طلباء تعلیم مکمل کرکے معاشرے کی اس شعبے میں خدمت کریں، اور ریاست کی سرمایہ کاری کے ثمرات مل سکیں، اس لیے ان کے ’’غلط انتخاب‘‘ کی وجہ سے قومی وسائل کا نقصان ہوتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں غلط کریئر کے انتخاب کی تازہ ترین مثال پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہونے والے سب انسپکٹرز ہیں، جن کی پاسنگ آؤٹ پریڈ 18 مئی 2015 کو پولیس کالج سہالہ، پنجاب میں ہوئی جس کے مہمانِ خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف تھے۔ اس موقع پر پنجاب پولیس کی جانب سے جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق بھرتی ہونے والے سب انسپکٹرز میں 48 افراد نے ایم اے، 35 نے ایم ایس سی، 34 نے ایل ایل بی، 31 نے انجینئرنگ، 22 نے ایم فل، 17 نے ایم بی اے، چار نے ایم سی ایس، 2 نے اے سی سی اے، 20 نے بی بی اے، 30 نے بی ایس سی، اور 41 نے ایم کام کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ان سب انسپیکٹرز میں 1 پی ایچ ڈی اسکالر بھی شامل ہیں۔

یہاں غور طلب یہ بات ہے کہ یہ وہ افراد ہیں جن کو پنجاب پبلک سروس کمیشن نے منتخب کیا ہوا ہے، جب کہ سب انسپکٹرز بھرتی ہونے کےاس طرح کے’’ اعلی ڈگری یافتہ‘‘ خواہشمندوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔

ویسے میرے اندر کا ’’شرارتی بچہ‘‘ مجھ سے یہ سوال کر رہا ہے کہ سب انسپکٹر کا پے اسکیل اور ہائی اسکول کے ٹیچرز کا پے سکیل (BPS-14) ایک جیسا ہے، تو کیا یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ’’قوم کی خدمت‘‘ کے لیے اسکول ٹیچرز بھرتی ہونے کے لیے تیار ہوں گے؟

خیر یہ تو ایک مذاق تھا، لیکن ہمیں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ کریئر پلاننگ پر عمل کیا جائے۔ اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائے تاکہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں بہتری آسکے۔

حسن اکبر

حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔