حیسکو افسران کے خلاف مقدمہ، وفاقی وزیر برہم
حیدرآباد: وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے بجلی کے محکمے کے افسران پر ایک عجیب و غریب مقدمہ قائم کرنے اور ان کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر نے حیدرآباد پہنچنے کےبعد سندھ پولیس کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کیا اور قاسم آباد سے رکن صوبائی اسمبلی پر اس طرح کے حربوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے اس سلسلے میں لاتعلقی اختیار کرنے پر حکومتِ سندھ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
منگل کو بھٹائی نگر پولیس اسٹیشن کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عابد شیر علی نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی بے حسی کی انتہا ہے کہ حیسکو کے افسران کے خلاف ایک گدھے کی ہلاکت کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔
اس موقع پر ان کے ہمراہ حیسکو کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، ایک ایگزیکٹیو انجینئر اور سب ڈویژنل آفیسر کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر افسران بھی موجود تھے۔
یاد رہے کہ اتوار کو ایک شخص محمد جارو پالاری کی شکایت پر ایک ایف آئی آر (87/15) کے تحت حیسکو ایگزیکٹو انجینئر تجمل حسین، ایس ڈی او نیاز لاشاری، لائن مین عزیز گوپانگ اور ریاض راجپوت جبکہ میٹر ریڈرز سرور عباسی اور سرور ہنگورو کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جامشورو روڈ پر بجلی کا تار ٹوٹ کر گرگیا تھا، جس میں آنے والے کرنٹ سے محمد جارو پالاری کا گدھا ہلاک ہوگیا تھا۔
ایف آئی آر میں نامزد ملزمان نے پیر کو حیدرآباد سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔
وفاقی وزیر نے پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آؤ.... مجھے اور میرے افسران کو گرفتار کرو۔‘‘
سرکاری کاموں میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے افراد کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ یہ لڑائی سڑکوں اور عدالتوں میں جاری رہے گی۔
عابد شیر علی نے کہا کہ گدھے کی موت پر حیسکو افسران کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا، لیکن حیسکو اور سیپکو (سکھر الیکٹرک پاور سپلائی کمپنی) کی جانب سے بجلی چوروں کے خلاف درج کرائی گئی تقریباً ساڑھے چھ ہزار درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
سندھ پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی چوروں کے خلاف صرف 28 مقدمات درج کیے گئے تھے، لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
انہوں نے سوال کیا ’’بجلی چوری کے ملزمان کو وہ (پولیس) کیوں گرفتار نہیں کرتے۔‘‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایک جانور کی ہلاکت پر وہ کیوں اپنی بے حسی کا اظہار کررہے ہیں، کیا اس کو جینے کا حق نہیں تھا، تو وفاقی وزیر نے کہا وہ اپنے افسران کے تحفظ اور پولیس کی ایف آئی آر کے حوالے سے حساسیت کی بات کررہے تھے۔
انہوں نے اپنا سوال دوہرایا ’’وہ بجلی چوروں کی گرفتاری پر تذبذب کا شکار کیوں ہیں؟‘‘
عابد شیر علی نے رکن اسمبلی کا نام لیے بغیر کہا ’’اس علاقے (قاسم آباد) کے رکن صوبائی اسمبلی نے (حیسکو) افسران کو دھمکیاں دیں اور انہیں غیرقانونی کنکشن کاٹنے کے لیے علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔‘‘ تاہم حیسکو کے سی ای او نے صحافیوں کے اصرار پر ان کا نام بتادیا۔
مذکورہ رکن صوبائی اسمبلی، صوبائی وزیر برائے لائیو اسٹاک جام خان شورو ہے۔
واضح رہے کہ حیسکو کے مقامی آفس میں وفاقی وزیر عابد شیر علی کی ایک پریس بریفنگ ہونا تھی، لیکن اس کا انعقاد نہیں ہوا، اور صحافیوں کو بتایا گیا کہ اس کے بجائے وہ بھٹائی نگر پولیس اسٹیشن کے باہر میڈیا سے بات کریں گے۔
اگرچہ وفاقی وزیر اس بات سے واقف تھے کہ ایف آئی آر میں نامز افسران نے پہلے ہی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی، تاہم وفاقی وزیر نے ان افسران کے ساتھ پولیس اسٹیشن کے باہر تقریباً ایک گھنٹہ گزارا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا یہ رویہ ان کی وزارت اور حکومتِ سندھ کے درمیان تنازع کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا ’’میں اس معاملے پر سیاست نہیں کررہا ہوں۔ یا تو ہمیں اداروں کو بند کردینا چاہیے، یا بجلی چوروں کے خلاف ہماری لڑائی روک دینی چاہیے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے غیراہم معاملے میں حیسکو افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر سندھ پولیس کے سربراہ اور حیدرآباد کے ایس ایس پی کو شرم محسوس کرنی چاہیے۔
سندھ کے صوبائی وزیر کا ردّعمل
وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی کے بیان پر ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے سندھ کے لائیو اسٹاک کے وزیر جام خان شورو نے ڈان کو بتایا ’’اگر مستقبل میں ان (حیسکو) کی بدانتظامی کی وجہ سے انسانی یا کسی جانوری کی جان کا زیاں ہوتا ہے تو ہم وفاقی وزیر (عابد شیرعلی) کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایک گدھے کی ہلاکت کا معاملہ وفاقی وزیر کے لیے شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لیکن اس مالک دیہاتی کے لیے وہ ایک اثاثہ اور روزی کمانے کا ذریعہ تھا۔
جام خان شورو نے کہا کہ ’’جب بھی یہ وفاقی وزیر سندھ کا دورہ کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کا دورہ کررہے ہوں۔‘‘
انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے بجلی کے واجبات کی عدم ادائیگی کے بارے میں عابد شیر علی کے دعووں کو بھی مسترد کردیا۔
صوبائی وزیر نے دلیل دی کہ ’’نادہندگان کو سزا دینے کے لیے دس ہزار کی آبادی پر مشتمل حر کیمپ کو بجلی کی سپلائی مین لنک کی جانب سے منقطع کردی گئی، باقاعدگی کے ساتھ بل ادا کرنے والوں کے ساتھ بھی یکساں سلوک کیا گیا۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر حیسکو نے اپنی اصلاح نہیں کی تو لوگ یقیناً اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
جام خان شورو نے دلیل دی کہ سندھ پر وزارتِ بجلی کے 26 ارب روپے واجب الادا ہیں تو پنجاب کو اسے 40 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔