نقطہ نظر

معذور نہیں، منفرد بچے

کئی گھرانے دوسرے لوگوں کے پریشان کن ردِ عمل کی وجہ سے اپنے خصوصی بچوں کو دنیا کے سامنے لانے سے ڈرتے ہیں۔

معذور نہیں، منفرد بچے

عثمان احمد

خصوصی ضروریات رکھنے والے اور معذور بچے پاکستانی معاشرے کے سب سے زیادہ دیوار سے لگائے گئے طبقات میں شامل ہیں۔ نہ یہ کسی کو دکھائی دیتے ہیں، نہ ان کی کوئی پہچان ہے، اور نہ انہیں کوئی یاد رکھتا ہے۔

لوگوں کے رویے اکثر بے توجہی، اور ذہن میں دبی بے بنیاد من گھڑت باتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کئی گھرانوں کے لیے دوسرے لوگوں کے ردِ عمل سہنا اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خصوصی بچوں کو دنیا کے سامنے لانے سے ڈرتے ہیں۔

اس کے علاوہ خصوصی بچوں کے لیے سہولیات، خاص طور پر تعلیمی سہولیات کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایسے 14 لاکھ بچے کسی بھی قسم کی تعلیم سے محروم ہیں، کیونکہ انہیں اس تک رسائی نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔

لیکن کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو اس خلا کو پر کرنا چاہتے ہیں، تاکہ منفرد خاصیتیں رکھنے والے خصوصی بچے اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کر سکیں۔

یہ فوٹو بلاگ ایسے ہی ایک ادارے میں گزارے گئے دو دنوں کی کہانی پر مشتمل ہے۔

مقصد ان بچوں کی خصوصی ضروریات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، معذوری کا ایک دوسرا رخ دکھانا، اور اس حوالے سے موجود غلط فہمیوں اور من گھڑت باتوں کا خاتمہ کرنا ہے۔


یہ تصاویر لکھاری نے لی ہیں، اور ان کے لیے بچوں کے والدین اور ادارے سے پیشگی اجازت لی گئی ہے۔


عثمان احمد پاکستان میں مقیم برطانوی فری لانس لکھاری ہیں، جو انسانی حقوق اور اقلیتوں پر لکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: usmanahmad_iam@

انگلش میں پڑھیں۔

عثمان احمد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔