باقی صوبائی حکومتیں بھی کچھ کر لیں
جمعرات کے روز جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے مابین بنائی جانے والی میٹرو بس سروس کے افتتاح کے بعد دونوں شہروں سے ایک جمِ غفیر اس بس کا مزہ لینے نئے تعمیر شدہ بس اسٹیشنز پہنچ گیا، جس کی وجہ سے 20 روپے کے عوض ٹکٹ لینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
سیکیورٹی خدشات کے سبب راولپنڈی۔اسلام آباد میٹرو بس منصوبے کی افتتاحی تقریب کنونشن سینٹر، اسلام آباد میں منعقد کی گئی۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو دیکھ کر لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی دوسرا ملک ہے، یہ کوئی دوسرا ملک نہیں، بلکہ پاکستان تبدیل ہورہا ہے۔"
وزیر اعظم کے اس بیان کو دیکھ کر واقعی لگتا ہے کہ یہ پاکستان نہیں، بلکہ کوئی دوسرا ملک ہے، جس کا صوبہ پنجاب باقی تین صوبوں کی نسبت ترقی کی منزلیں طے کرتا جارہا ہے، اور جس کے وزیرِ اعظم آئے دن کبھی بجلی گھروں کا افتتاح کر رہے ہوتے ہیں، اور کبھی موٹر ویز کا۔ کبھی شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھا جارہا ہوتا ہے، اور کبھی شہرِ لاہور کی سڑکوں پر موجود ٹریفک کے لیے اوور ہیڈ برجز کا۔
تصاویر: میٹرو بس منصوبے کا افتتاح
مگر پتہ نہیں کیوں تقریباً دو سال قبل منتخب ہونے والے وزیر اعظم ہمیشہ پنجاب کا ہی سوچتے ہیں؟
ایک تو اٹھارہویں ترمیم کے بعد اکثریتی اختیارات صوبائی حکومتوں کو منتقل کردیے گئے ہیں۔ بھلا اختیارات کی ایسی منتقلی کا عوام کو کیا فائدہ، جس کے بعد نہ تو عوام کو پینے کے لیے صاف پانی دستیاب ہے، اور نہ ہی ہسپتالوں میں دوائیاں۔
اسلام آباد میں ہونے والی اس تقریب کو براہِ راست تمام چینلز پر نشر بھی کیا گیا۔ ویسے تو پچھلے کئی دنوں سے اس منصوبے کو کوریج دی جارہی تھی، مگر افتتاحی تقریب والے دن اس منصوبے کے اشتہارات اخبارات کے علاوہ چینلز پر بھی نشر کیے گئے، جن کو دیکھ کر دیکھنے والے محسوس کر رہے تھے جیسے یہ پاکستان نہیں بلکہ یورپ کا کوئی ملک ہے، جہاں بسیں بنا کسی رکاوٹ کے عام شہریوں کو راولپنڈی سے اسلام آباد صرف 20 روپے کے عوض لے کر جائیں گی۔
اسی دن اکثر نیوز چینلز پر مباحثے بھی کیے گئے جن میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے اس منصوبے کی برائیاں پیش کیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ملک میں لوگ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، اور دہشت گردی سے مر رہے ہیں اور نواز لیگ کو سڑکیں اور میٹرو بسیں چلانی کی پڑی ہے۔ یہ پیسہ سڑکوں پر ضائع کرنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر لگایا جانا چاہیے۔ بچوں کے اسکول بنائے جانے چاہیئں، ہسپتالوں کے حالات بہتر کرنے چاہیئں، وغیرہ وغیرہ۔
اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی اپنا عین فرض سمجھتے ہوئے اس منصوبے پر نقطہ چینی کرتی نظر آئیں۔ کسی کو اس منصوبے پر لگائی جانے والی رقم پر اعتراض تھا، تو کوئی "اس منصوبے سے بہتر زیرِ زمین ٹرین ہے" کی گردان کر رہا تھا، اور کوئی اسے اربوں روپے کا ضیاع گردان رہا تھا۔
میں ذاتی طور پر مسلم لیگ نواز کا حامی نہیں ہوں مگر ان کے کیے گئے کاموں کی وجہ سے مجھے فائدہ ضرور ہورہا ہے۔ میں صحافتی مصروفیات کی وجہ سے کبھی بھی ووٹ نہیں ڈال سکا، مگر میرا ضمیر کہتا ہے کہ اگر میں ووٹ ڈالوں گا تو شیر کو ہی ڈالوں گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور میں رہتے ہوئے مجھے سفر کرنے کے لیے بہترین سڑکیں دستیاب ہیں، اندرونِ شہر سفر کرنے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ میٹرو بسیں دستیاب ہیں، لاہور سے اسلام آباد جانے کے لیے موٹر وے بنی ہوئی ہے، کسی حادثے کی صورت میں 1122 سات سے آٹھ منٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ مجھے اور کیا چاہیے۔
مزید پڑھیے: کچھ نئی 'جنگلہ بس' کے بارے میں
مگر جب میں نام نہاد صحافی بن کر سوچتا ہوں، تو میرا دل کرتا ہے کہ ایسی حکومت کو وفاق میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں جو کہ سارے منصوبے اس صوبے میں بنا رہے ہیں، جہاں سے وہ منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو ن لیگ کو صرف پنجاب میں ہی حکومت بنانے کا حق ہے۔
مگر پھر خیال آتا ہے اٹھارہویں ترمیم کا، جس کی وجہ سے یہ تمام ذمہ داریاں صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہیں۔ پشیمانی کی بات یہ ہے کہ دو صوبوں سندھ اور خیبر پختونخوا میں جو حکومتیں ہیں، وہ کوئی بھی ایسا خاطر خواہ کام کرنے میں ناکام ہیں۔ نہ تو ان سے آج تک امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پایا گیا ہے، اور نہ ہی ان سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ ہورہا ہے۔
سندھ میں پچھلے سات سالوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، مگر مجال ہے جو اس صوبائی حکومت نے میٹرو بس جیسا کوئی منصوبہ شروع کیا ہو۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کی محرومیاں دیکھ کر جلنا تو دور، اب رحم آتا ہے کہ کیسا شہر ہے جس کے باسی سمندر کنارے بھی پیاسے ہیں۔
مانا کہ امن و امان کا مسئلہ وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومت سے حل نہیں ہو پارہا، مگر خدا کے واسطے سندھ کی حکومت پینے کا پانی تو مہیا کرے۔ سکیورٹی کے حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ تو سمجھ آتی ہے، مگر پانی کی عدم دستیابی سمجھ نہیں آتی۔
خیبر پختونخواہ حکومت کے تو کیا ہی کہنے۔ مجھ میں چھپا نام نہاد تبدیلی پسند صحافی سمجھتا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پی میں عوام کی ایسی خدمت کرے گی کہ باقی صوبے دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ لگتا تھا کہ عمران خان ان پانچ سالوں میں انقلاب برپا کردیں گے۔ مگر حالیہ بلدیاتی انتخابات نے تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کا پول ہی کھول دیا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ عمران خان کی جانب سے کہہ دیا گیا کہ صوبائی حکومت دوبارہ سے بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے۔ واہ خان صاحب، سلام ہے آپ کی دانائی کو۔
بلوچستان کی بات کی جائے تو 2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں ایسی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے جو کہ بظاہر تو ایک غیر سردار چلا رہا ہے، مگر اصل میں حکومت کس کے پاس ہے، کسی کو نہیں پتہ۔ جمہوریت کے دعویداروں نے سب سے پہلے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تو کروا دیے مگر ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جس میں لوگوں کو حقوق و سہولیات اب بھی میسر نہیں، جبکہ وزیرِ اعلیٰ جیسے بے بس و بے اختیار ہیں۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے، کہ لاہور میٹروبس کے بعد اب راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس منصوبہ مکمل ہوتا دیکھ کر دوسرے صوبوں اور شہروں، خصوصاً شہرِ قائد کے باسی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر انہیں کب بہتر سفری سہولیات میسر ہوں گی اور وہ کب تک پرانی اور خستہ بسوں پر لٹک کر سفر کرتے رہیں گے۔
جانیے: کراچی کے لیے گرین بس ٹرانزٹ سسٹم کا اعلان
راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس منصوبہ حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت کے درمیان شراکت داری سے تکمیل پایا ہے، کیا دوسرے صوبوں کی حکومتیں ایسا خود سے نہیں کر سکتی تھیں؟ شہری وفاق کی طرف دیکھتے ہیں، تو اٹھارہویں ترمیم کا بہانہ بنا دیا جاتا ہے، صوبائی حکومت کی جانب دیکھتے ہیں تو وہاں کوئی سننے والا نہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں سے سندھ میں حکومت پی پی پی کی ہے، لیکن ماس ٹرانزٹ کے منصوبے کا اعلان کل وفاقی حکومت نے کیا۔
اس سب کو دیکھتے ہوئے عوام یہی سوچنے پر مجبور ہیں کہ صوبائی خودمختاری کے بعد بھی اگر یہ کام، جو عموماً شہری حکومتوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں، وفاق نے ہی کرنے ہیں تو پھر ایسی خود مختاری کس کام کی ہے، اور جو صوبائی حکومتیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اختیارات ملنے پر اتنی خوش تھیں، انہوں نے ان اختیارات میں سے کتنے عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کیے۔
کیا کسی کے پاس اس بات کا جواب ہے؟
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔