نقطہ نظر

بیچارہ ریڈیو پاکستان

اگر اس ادارے کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جاتا، تو یہ بلاشبہ دنیا کی نامور ریڈیو سروسز میں شمار ہوتا۔

”چن! (چاند) میں نے کراچی میں تین نغمے آج ہی ریکارڈ کروائے ہیں۔ تُسی رات کو 8 بجے ریڈیو پر سن لینا۔“

یہ الفاظ پاکستان کی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کے تھے، جو کہ پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان سے ٹیلیفون پر بہت ہی بے تکلفی سے بات کر رہی تھیں۔ اس واقعے کے راوی جمیل زبیری صاحب ہیں، جنہوں نے ریڈیو پاکستان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا۔ یہ تمام صورتحال انہوں نے اپنی کتاب ”یادِ خزانہ، ریڈیو پاکستان میں 25 سال“ کے صفحہ نمبر 222 پر بیان کی ہے۔ وہ اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ:

”(70 کی دہائی میں جس وقت پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہو رہی تھی)، لڑائی جاری تھی اور ہم لوگ نغمے وغیرہ تیار کرنے میں مصروف تھے۔ کسی طرح مادام نور جہاں ایک روز لندن سے کراچی پہنچ گئیں اور نغمے ریکارڈ کروانے ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن آئیں۔ ریڈیو نے ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا، اور اسی وقت انتظامات کر کے ان کی آواز میں تین نغمے ریکارڈ کر لیے۔

نغمے ریکارڈ کر کے وہ اسٹوڈیو سے نکلیں اور اسٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ کے کمرے میں آکر ان سے کہنے لگیں کہ ٹیلی فون یحییٰ خان سے ملوائیں، اور میری بات کروائیں۔ کچھ بھی ہو، یحییٰ خان بہرحال صدر تھے۔ وہ ذرا گھبرائے۔ وہ کہنے لگیں آپ ڈریں نہیں رِنگ کریں اور ٹیلی فون مجھے دے دیں۔ جب وہ کسی طرح نہیں مانیں تو طاہر شاہ مجبور ہوگئے۔ اس وقت میں بھی ان کے کمرے میں موجود تھا۔ میں اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں۔ چنانچہ فون ملایا گیا۔ شاید پہلے ان کے سیکریٹری بولے ہوں گے پھر وہ خود فون پر آگئے۔ تب مادام نور جہاں نے ان سے یہ الفاظ کہے تھے۔

ہم لوگوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ مادام نور جہاں نے خود ہی نغمے نشر ہونے کا وقت بھی مقرر کر دیا اور صدر کو بتا دیا۔ پریشانی یہ تھی کہ اس وقت خبریں نشر ہوتی تھیں۔ جنگ ہورہی تھی اور نغموں کے لیے خبروں کا وقت تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مادام نورجہاں کو کھانے کے لیے دوسرے کمرے میں بھیج دیا گیا اور طاہر شاہ نے پریشانی میں ڈائریکٹر جنرل کو اسلام آباد فون کر کے سب بتا دیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صدر کے سیکریٹری سے بات کر لوں گا۔ یہ نغمے خبروں پر تبصرے کے بعد نشر کر دیے جائیں۔“

ریڈیو پاکستان اپنے آغاز سے لے کر اب تک حکومتی ترجمان کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ گو کہ ریڈیو کے ابتداء میں زیڈ اے بخاری اور ان جیسے دانشوروں نے ریڈیو کو عوامی بنانے کی بھرپور کوشش کی اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے، لیکن آہستہ آہستہ ریڈیو کو چلانے والے افسران کا انتخاب حکمرانوں کی پسند اور ناپسند سے ہوتا تھا۔ وہ کسی بھی پراعتماد، روشن خیال، اور پڑھے لکھے شخص کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ زیڈ اے بخاری اس حوالے سے پہلا شکار بنے۔ برہان الدین حسن اپنی کتاب ”پس پردہ“ کے صفحہ نمبر 38 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

”جب ایوب خان قوم سے پہلے خطاب کے لیے براڈ کاسٹنگ ہاؤس آئے تو انہوں نے فوری طور پر زیڈ اے بخاری کے بارے میں ناپسندیدگی کا تاثر دیا۔ ممکن ہے انہوں نے بخاری کو ضرورت سے زیادہ پر اعتماد پایا ہو، یا ان سے تھوڑی بہت گستاخی سرزد ہوگئی ہو۔ بخاری صاحب اس کے تھوڑے عرصے بعد ریٹائر کر دیے گئے۔ ان کے پرانے ساتھی سید رشید احمد بھی، جنہیں ان کا جانشین مقرر کیا گیا، زیادہ عرصہ اپنے عہدے پر نہیں رہ سکے اور ریڈیو پاکستان کا کنٹرول سرکاری افسروں کے ہاتھ میں چلا گیا جو اسے حکومت کی منشا کے عین مطابق چلانے کا فن خوب جانتے تھے۔

"اس طرح ریڈیو پاکستان جو کہ ثقافت اور آرٹ کی تخلیق کا مرکز تھا، محض وزارتِ اطلاعات کا ایک ماتحت دفتر بن کر رہ گیا۔ ریڈیو کی خبروں کو بھی تقریروں، بیانات اور پی آئی ڈی کے جاری کردہ پریس نوٹس کا ملغوبہ بنا دیا گیا۔ مجھے ایک سینیئر سرکاری افسر کی بات یاد ہے جسے ریڈیو پاکستان کا ڈی جی مقرر کیا گیا۔ یہ موصوف پہلی بار براڈکاسٹنگ ہاؤس کے سرکاری دورے پر آئے۔ اس سے پہلے انہوں نے نہ تو ریڈیو اسٹیشن کی شکل دیکھی تھی نہ ہی زندگی میں کبھی مائیکروفون سے واسطہ پڑا تھا۔ اس لیے وہ ریڈیو پاکستان کو بار بار ”دی ریڈیو پاکستان“ کہہ رہے تھے۔“

ریڈیو پاکستان کے ملازمین کی نوکری ہمیشہ داؤ پر لگی رہتی تھی۔ خصوصاً آمرانہ دورِ حکومت میں کسی بھی ایسے لفظ پر جو حکمران یا اس کے حواریوں کو ناگوار گزرے، اس پر نہ صرف افسران کی طلبی ہوتی تھی، بلکہ اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھی جاری کیے جاتے تھے۔ وہ بھی اس صورت میں جب وہ فرد باقائدہ ملازم ہو۔ اگر ملازم نہیں، بلکہ لکھاری یا دانشور ہوتا، تو اس کا نام سیاہ فہرست (بلیک لسٹ) میں ڈال دیا جاتا تھا اور اس کے بعد ان کی ریڈیو میں داخلے پر پابندی لگا دی جاتی تھی۔ بعض اوقات صورتِ حال انتہائی مضحکہ خیز ہوجاتی۔ جمیل زبیری ایسی ہی ایک صورتِ حال کا ذکر اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 287 پر یوں کرتے ہیں:

”اس زمانے میں ہم عالمی سروس سے ایک پروگرام ”کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر“ نشر کیا کرتے تھے۔ ایک روز ایک شاعر اپنا کلام میرے پاس لے کر آئے۔ ان کا نام ضیاء الحق تھا۔ میں نے غزل دیکھی، ٹھیک ٹھاک اور قابلِ نشر تھی۔ انہیں اوپر اسٹوڈیو میں بھیج دیا۔ میری خوش قسمتی کہ اس وقت ڈیوٹی پر آغا جان جیسا سمجھدار ڈیوٹی افسر موجود تھا۔ ذرا ہی دیر میں میرے پاس ان کا فون آیا۔ بولے: ”زبیری صاحب ایک شاعر اپنا کلام نشر کروانے آئے ہیں اور اپنا پورا نام مع تخلص کے نشر کرنا چاہتے ہیں۔ ضیاء الحق 'فتنہ'۔

"میں نے پریشان ہو کر کہا کہ انہیں روکیں، فوراً روکیں۔ وہ کیوں مجھے اور آپ کو ملازمت سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ بہرحال میں نے آغا جان سے کہا کہ انہیں کہیں کہ وہ نیچے آکر اپنا کلام ریکارڈ کروائیں، ہم بعد میں نشر کر دیں گے۔ (ریڈیو پاکستان کراچی میں ایک دفتر نیچے بھی بنا ہوا ہے)۔ چنانچہ وہاں ان کی ریکارڈنگ کی گئی اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنا مقطع نہ پڑھیں۔“

پاکستان میں جب ایف ایم ریڈیو کا آغاز ہوا تو اس نے اے ایم ریڈیو کے روایتی طریقہ کار کو قریباً تباہ کر دیا۔ یہ عوامی ریڈیو تھا جو عوام کی زبان میں بات کرتا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے بھی ایف ایم ریڈیو کا آغاز کیا۔ اسی طرح کا ایک ایف ایم اسٹیشن حیدرآباد میں قائم کیا گیا۔

ابتداء میں میرے دوست احمد رضا اور جنید نصیر فاروقی کا انتخاب بحیثیت میزبان کے کیا گیا۔ ان دونوں دوستوں نے ایف ایم 101 حیدرآباد کے حوالے سے بہت شہرت کمائی۔ احمد رضا آج کل بی بی سی میں پروڈیوسر کے حوالے سے خدمات انجام دے رہے ہیں، جبکہ جنید نصیر فاروقی کراچی میں مختلف ایف ایم ریڈیوز پر میزبانی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

ان دونوں حضرات نے ہمیں راغب کیا کہ ہم بھی ایف ایم میزبانی کے لیے آڈیشن دیں اور ان دونوں کی رہنمائی کی وجہ سے 45 لوگوں میں سے جو تین لوگ منتخب ہوئے، ان میں ہم بھی شامل تھے۔

ایک دن عالمی یومِ خواتین تھا۔ یہ مشرف دور کی بات ہے۔ ہم نے اس موقع پر ایک گانا ”ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں، قوموں کی عزت ہم سے ہے“ نشر کیا۔ یہ گانا ابھی آدھا ہی نشر ہوا تھا کہ ڈیوٹی افسر مجاہد عزیز ہانپتے کانپتے اسٹوڈیو میں داخل ہوئے اور ساؤنڈ انجینیئر کو عجیب و غریب اشارے کرنے لگے۔

ہم ان کے اشارے سمجھ نہ پائے۔ اردو میں ایک مثال مشہور ہے کہ گونگے کی بولی گونگے کی ماں ہی سمجھے۔ اچانک بیک گراؤنڈ میوزک چلنا شروع ہو گیا۔ ہم حیران پریشان۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا گانا نشر کرو۔ اس کے بعد ہم نے نئے سرے سے تمہید باندھی، فنی خرابی کا ذکر کیا، اور نیا نغمہ نشر کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایف ایم انچارج نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ یہ نغمہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں نشر ہوا تھا۔ وہ اب جلا وطن ہیں، اور ملک میں مشرف کی حکومت ہے۔ سارے پروگرام مانیٹر ہوتے ہیں۔

انہوں نے عملے کو کہا کہ یہ شخص ہماری نوکریوں کے پیچھے ہے۔ اب اسے پتہ لگے گا۔ پتہ کیا لگنا تھا؟ کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ ہمیں آف ایئر کرنے کے لیے کیا گیا۔ لیکن 2015 میں جب جمیل زبیری صاحب کی کتاب پڑھی تو اندازہ ہوا کہ یہ بات سچ تھی۔

جمیل زبیری نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 287 پر ایسے ہی ایک واقعے کو یوں بیان کیا ہے: ”پیپلز پارٹی نے اگلے سال بھٹو کی سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا۔ عالمی سروس سے ان دنوں فرمائشی پروگرام نشر کیا جاتا تھا۔ اتفاق سے وہ وہی دن تھا۔ ایک فلمی گانا "سالگرہ کا دن آیا ہے" بہت مقبول ہوا تھا اور ہمارے پاس اسے نشر کرنے کی فرمائش کے کئی خط آئے تھے۔ سالگرہ کے دن اس خط کو غیر ارادی طور پر فرمائش میں شامل کر کے مجھے بھیج دیا گیا۔

میں نے بھی اسے کوئی خاص اہمیت نہ دی، اور وہ گانا نشر ہو گیا۔ اور چونکہ وہ گانا بہت پسند کیا جارہا تھا، لہٰذا کراچی اسٹیشن کے اناؤنسر نے ہماری سروس سے یہ ریکارڈ لے کر کراچی اسٹیشن سے بھی نشر کر دیا۔ اس کا نشر ہونا تھا کہ قیامت سی آگئی۔ کراچی سے اسلام آباد تک ٹیلی فون کھڑکنے لگے اور انکوائری شروع ہوگئی کہ یہ گانا بھٹو کی سالگرہ کے دن کیسے اور کیوں نشر کیا گیا۔"

وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے روزنامہ جسارت نے اگلے دن نہ صرف اس خبر کو موٹا موٹا چھاپا، بلکہ ساتھ یہ بھی اضافہ کیا گیا کہ "عالمی سروس سے نہ صرف یہ گانا نشر کیا گیا ہے، بلکہ یہ بھی سنا گیا ہے کہ اس کے ایک کمرے میں بھٹو کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا ہے۔"

"بہر حال اس خبر کے بعد مجھے وارننگ کا ایک خط ملا۔ کراچی اسٹیشن کے پروڈیوسر کی دو سال کے لیے ترقی بند ہوئی، اور کراچی اسٹیشن کا اناؤنسر معطل کیا گیا۔ بعد میں ان دونوں کو معافی مل گئی تھی اور میری وارننگ بھی فائل سے خارج کر دی گئی تھی۔ چند روز بعد ڈپٹی کنٹرولر بدر عالم کا تبادلہ ہوگیا اور ان کی جگہ مجید فاروقی آگئے۔"

ریڈیو پاکستان کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے پر ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اس کی تقریباً 7 دہائیوں پر مشتمل تاریخ سے چند واقعات آپ کی نظر کیے جائیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر اس ادارے کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جاتا، تو یہ بلاشبہ دنیا کی نامور ریڈیو سروسز میں شمار ہوتا۔

لیکن ان سب واقعات کے باوجود اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ ریڈیو پاکستان اب بھی ایک بہت ہی معیاری ادارہ ہے، اور میڈیا کی ترقی کے اس دور میں جہاں زبان و بیان کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں، وہاں ریڈیو پاکستان میں اب بھی تلفظ میں زیر زبر پیش کا خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی فلمی انڈسٹری اور صحافت کے بڑے بڑے ناموں نے اپنے کریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا، اور یہیں سے حاصل کی گئی تربیت کے بل بوتے پر اپنا آپ منوایا ہے۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔