'آئی ایس آئی نے تقریباً 7 ہزار فونز ٹیپ کیے'
اسلام آباد : انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے بدھ کو سپریم کورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اس نے گزشہ ماہ یعنی مئی میں ملک بھر میں 6856 ٹیلیفونز کو ٹیپ کیا جبکہ اپریل میں یہ تعداد 6742 رہی۔
یہ معلومات جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کی گئی جو 19 سال پہلے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے 1996 میںٹیلیفون ٹیپ کرنے سے متعلق لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کررہا تھا۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ ازخود نوٹس اس وقت لیا تھا جب ان کے ٹیلیفون سے خفیہ اداروں کی جاب لگائی گئی ایک ڈیوائس برآمد ہوئی تھی۔
بعد ازاں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری (مرحوم) نے ٹیلیفون ٹیپنگ کے معاملے کو بھی سپریم کورٹ کے سامنے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی دیگر وجوہات میں سے ایک قرار دیا تھا۔
بدھ کو ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے ایک سربمہر لفافہ عدالت میں جمع کرایا۔
اس دستاویز کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ جاسوس ادارے نے فروری میں 6523، مارچ میں 6819، اپریل میں 6742 اور مئی میں 6856 ٹیلیفون نمبروں کو ٹیپ کیا۔
یہ خفیہ رپورٹ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے آئی ایس آئی کی جانب سے 22 مئی کے احکامات کی روشنی میں جمع کرائی، اس وقت قانونی آفیسر کی جانب سے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے اور رپورٹ جمع کرائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک بھر میں 5594 فون نمبروں کو ٹیپ کیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی کی جانب سے ججز چیمبر میں معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ان کیمرہ سماعت کی درخواست پر ایجنسی کے ایک عہدیدار اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو اگلے ہفتے درخواست پر غور کے لیے چیمبر میں طلب کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے جج نے اپنے ریمارکس میں کہا " ہم اس معاملے کو قالین کے نیچے دبا کر نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ لوگوں کے حقوق کا معاملہ ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر خفیہ ادارے کسی قانون کے تحت مختلف افراد کے ٹیلیفون ٹیپ کرتے ہیں تو پھر تو ٹھیک ہے تاہم اگر وہ یہ کام کسی قانون کے بغیر کر رہے ہیں تو یہ مناسب نہیں۔
عدالت نے سماعت کے موقع پر موجود سنیئر وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کو بھی اس معاملے میں معاونت کی ہدایت کی جس پر عبدالحفیظ پیرزادہ نے معاونت پر رضامندی ظاہر کی۔
مقدمے کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ معاملہ 1996 سے زیرالتواءہے اور اس عرصے کے دوران ججز و چیف جسٹس صاحبان تک کے فونز کی ریکارڈنگ کی گئی۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ٹیپ ہونے والے فونز کی مجموعی تعداد کا ڈیٹا جمع کرانے کی ہدایت بھی کی گئی اور کہا گیا تھا کہ بتایا جائے کہ کس قانون کے تعداد ان نمبرز کی گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا۔