اقتدار کو جاگیرداری کا سہارا؟
جمہوریت کا المیہ موروثی سیاست نہیں بلکہ مقامی چوہدراہٹ کے بدنما نمونے ہیں جن کے لیے سیاست قومی خدمت کا اعلیٰ ترین ذریعہ نہیں، محض حسب و نسب کے پاسپورٹ پر مفادات کا ویزا ہے۔
دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جو صدیوں جاگیردارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے رہنے کی تاریخ نہ رکھتا ہو۔ آج کے مہذب کہلانے والے جمہوریت کے چیمپیئن ممالک بھی ایسے ہی جاگیرداروں کے چنگل میں یرغمال رہے ہیں۔ فرانس، انگلینڈ، جرمنی، روم، اور اسپین سے لے کر چین، ہندوستان، اور روس تک ہر خطے میں ان لوگوں کا راج رہا۔
اپنے زیرِ نگیں علاقوں میں لوگوں کی زندگیاں ان کی مٹھی میں ہوتیں، اور ان کی بہو بیٹیوں پر بھی ان کا حکم چلتا۔ ایک علاقے کا جاگیردار کسی فاتح کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتا تو وہاں کے ہر نوجوان پر لازم ہوتا کہ وہ اس فاتح کی فوج میں شامل ہوجائے۔ پھر وہ علاقوں پر علاقے فتح کرتے ہوئے اس کی سلطنت کو وسعت دیتے۔ جان عام آدمی کی جاتی، اور انعام میں پانچ ہزاری، دس ہزاری، سپہ سالاری، گورنری، یا وزارت جیسے منصب جاگیردار کے حصے میں آتے۔
پڑھیے: پاکستانی سیاست: خیالی جاگیردار اور حقیقی اشرافیہ
سکندر سے لے کر چنگیز، تیمور، بابر، اور ہینی بال تک جو بھی فاتحین گزرے ہیں، وہ اپنے وطن سے لاکھوں کی فوج لے کر نہیں نکلتے تھے، بلکہ علاقے کے مقامی جاگیرداروں سے مفادات کا سودا کر کے لشکر میں اضافہ کرتے ہوئے سلطنت کو وسعت دیتے۔ آج بھی کسی گاؤں میں چلے جائیں، تو پورا گاؤں کسی نہ کسی ’قبضہ گروپ‘ کے زیر اثر ہوگا۔
وہاں کے جاگیردار کی مرضی کے بغیر نہ کوئی گھر تعمیر کرسکتا ہے، اور نہ ہی کسی کاروبار کا آغاز، نہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتا ہے، اور نہ ان کی مرضی کے بر عکس کوئی اور کام کر سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر جاگیردار ان کو اپنے غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کی جان، عزت و آبرو، اور مال ان کے قبضے میں ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں جمہوریت کا پودا انہی کی خوفناک، ظالم اور بااثر کیاری میں پروان چڑھتا ہے۔
جاگیردار وہ طبقہ ہے جو عوام کا استحصال اپنا حق سمجھتا ہے، کیونکہ ہمارے حکمران اقتدار کے حصول اور تحفظ کی خاطر یہ حق قانونی طور پر انہیں دیتے آئے ہیں۔ نہ تو عوام نے کبھی ان سے یہ حق چھینا اور نہ ہی بالادست حکمرانوں نے کبھی عوام کے مفاد کی خاطر ان سے یہ حق واپس لیا۔
حکمرانوں کے اپنے مفادات تھے لہٰذا انہوں نے کبھی جاگیرداروں سے یہ حق چھینا بھی، تو اس لیے تاکہ دوسرے مزید وفادار جاگیرداروں کو دیا جا سکے۔ اس طبقے کا مفاد عوام کے خون پسینے سے وابستہ ہے، اور یہ معاشرے کا خون چوسے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسے نہ تو ہم نصیحت کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ خود سے معاشرے کی طاقت بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیے: 'چوہدری' کو سلام کرنا ضروری ہے
زراعت کسی بھی معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، لیکن برصغیر میں اسے مضبوط کرنے کے لیے نہ کسان کو دلچسپی تھی نہ جاگیردار کو، اور نہ ہی خود حکمرانوں کو۔ حتیٰ کہ حکمرانوں اور بادشاہوں نے اپنے مفاد کی خاطر یہ طبقہ پیدا کیا تھا اور ان حکمرانوں میں مسلمان فاتحین بھی شامل تھے۔
ترک فاتحین نے ترک اور ایرانی جرنیلوں کو جاگیریں دیں، اور مغلوں نے اپنے ساتھیوں اور راجپوتوں کو۔ ان حکمرانوں نے پہلے تو عسکری خدمات کے عوض جاگیریں عطا کیں اور پھر ان جرنیلوں کو تنخواہ کے بدلے بھی جاگیریں ہی دیتے رہے، لیکن یہ جاگیریں جاگیردار کی جائیداد نہیں ہوتی تھیں، بلکہ زمینوں کے مالک کسانوں کی برادریاں ہوتی تھیں۔
ہندوستان میں ٹیکس وصول کرنے والا جاگیردار بدلتا رہتا تھا مگر کسان اپنی جگہ مستقل رہتا تھا۔ ہندوستان میں جاگیرداری نظام بادشاہت کی ضرورت تھی۔ بادشاہت حاصل کرنے کے لیے جاگیرداروں کی ضرورت ہوتی تھی تو اسے قائم رکھنے کے لیے بھی جاگیرداروں کا تعاون حاصل کرنا پڑتا تھا۔ امراء جاگیروں کی لالچ میں بادشاہ یا اس کے حریف کی حمایت کرتے تھے، اس لیے بادشاہت اور جاگیرداری لازم و ملزوم بن چکی تھی۔
آج بھی جاگیردار طبقہ اپنے مفاد کے لیے ہم خیال گروپ بنا لیتا ہے، اور کسی سازش کے تحت اپنے ہی ساتھیوں کا استعمال کر کے اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے اور پھر عوام اخبارات اور میڈیا میں ان کے قسط وار کہانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ چلے ہی جارہا ہے۔ جس طرح افغان امراء نے سلطان ابراہیم لودھی سے بغاوت کر کے بابر کو ہندوستان پر قبضہ کرنے کی دعوت دی تھی، اسی طرح آج بھی یہ امراء اپنے مفادات کے لیے سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔
جانیے: پاکستانی سیاست کے تین اہم ستون
جاگیردار صدیوں سے وفاداری کی قدر کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا آیا ہے۔ وقت اور حالات نے آج جاگیردار کو سیاست دان بنا دیا ہے، لیکن وہ آج بھی اس قدر کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ اب وہ اپنی وفاداری کی قیمت لگاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ان کی وفا کی گاہک ہوتی ہیں، جو ان کی وفاداریاں منہ مانگی قیمت پر خرید لیتی ہیں، اور یہ اپنے وفادار ووٹروں کے ساتھ راتوں رات پارٹی بدل لیتے ہیں۔
ان کے ووٹر وفا کے جذبے کے تحت ان کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں، اور ان کا لیڈر غداری کر کے جہاں جاتا ہے، وہاں وہ اس کے ساتھ وفا کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور جمہوریت کی اعلیٰ قدریں وہیں حیران و پریشان کھڑی رہ جاتی ہیں، اور اس کی روح مذہب اور وفا کی روحوں کے ساتھ مل کر عالم ارواح میں بین کرتی رہتی ہے۔ معاشرے کی ترقی کے لیے اس طبقے کو بے بس کرنا نہایت ضروری ہے۔
ذیشان احمد خان نے ماس کمیونکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZaadaKhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔