پاکستان وہ علاقہ جہاں رات کی حکمران خواتین نصف شب کے بعد چہل پہل تھم جاتی ہے اور سناٹے کا راج ہوجاتا ہے، تو خواتین بہترین ملبوسات میں گھروں کے باہر جمع ہوجاتی ہیں۔ یمنیٰ رفیع وہ علاقہ جہاں رات کو خواتین کی حکمرانی ہوتی ہےیمنیٰ رفیع فوٹو وائٹ اسٹار گزدرآباد کی تنگ گلیاں نہ صرف دن کے اوقات میں پرہجوم رہتی ہیں بلکہ لوگوں کی آمدورفت رات میں بھی جاری رہتی ہے۔ یہاں آپ آگے بڑھیں تو گلیاں اور راستے مزید تنگ ہوجاتے ہیں اور گھر آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ بمشکل ہی تاریکی میں ڈوبے آسمان کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ نصف شب کے بعد چہل پہل تھم جاتی ہے اور سناٹے کا راج ہوجاتا ہے، پھر ایک کے بعد ایک دروازہ آہستگی سے کھلتا ہے اور خواتین اپنے بہترین ملبوسات اور سونے کے زیورات زیب تن کیے باہر آکر اپنے گھروں کے باہر رکھے تختوں پر بیٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔بالکل اپنی سلطنتوں کی ملکاﺅں کی طرح رات گئے چائے کے ساتھ چغلیاں، لطائف سنانے اور ہنسنے ہنسانے میں مصروف یہ خواتین رات کے اس پہر گلیوں پر حکمرانی کرتی ہیں۔ بغیر کسی ڈر یا ملامت کے، کوئی مرد یا بچہ ان کے امن کو متاثر نہیں کرتا اور وہ اپنا فرصت کا وقت بھرپور مزے کے ساتھ گزارتی ہیں۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں رات کی تاریکی چھانے کے بعد اکیلے باہر گھومنے پر خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے یہ منظرنامہ کسی اور ملک کا لگتا ہے مگر اس علاقے کے رہائشیوں کے لیے یہ برسوں پرانی ایک عام چیز ہے۔گزدر آباد کو عام طور پر ' رنچھوڑ لائن' کے طور پر زیادہ جانا جاتا ہے، یہ کراچی شہر کے غریب علاقوں میں سے ایک ہے جہاں ہر جگہ تجاوزات کی بھرمار ہے مگر ان گلیوں کے وسط میں ایک برادری موجود ہے جس کی اپنی بولی، رسوم و روایات ہیں۔ اس علاقے میں موجود یہ برادری مارواڑی سلاوٹ ہے جو برصغیر کی تقسیم سے قبل راجھستان کے شہر جیسلمیر سے کراچی اور حیدرآباد منتقل ہوئی تھی۔مارواڑی برادری آپس میں جڑ کر رہنے والی ہے جن کی گزدرآباد میں آبادی بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی جانب سے بسائے گئے علاقے سے منتقل ہونے کے لیے تیار نہیں۔ستر سالہ گل زرینہ بتاتی ہیں " ہماری زندگی یہاں گزری ہے اور ہم یہیں مریں گے، یہاں تک کہ جو چند خاندان یہاں سے شہر کے بہتر علاقوں میں منتقل ہوئے ہیں وہ بھی اپنی شادیوں کے لیے یہاں کی سڑکوں پر واپس آتے ہیں"۔یہاں کی مرکزی شاہراہ متعدد گلیوں سے منسلک ہے جن کے پرانے نام ابھی تک برقرار ہیں جیسے پیرو بدھا اسٹریٹ، کلیان جی اسٹریٹ، کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کس زمانے میں ان کا قیام عمل میں آیا۔ہر گلی کے آغاز پر لکڑی کی بینچیں ہر کونے میں رکھی ہیں جہاں ہمیشہ ہی لوگ موجود ہوتے ہیں اور بھیل پوری سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو کہ اس علاقے کی خاصیت ہے۔ گلیوں میں موجود لکڑی کی بینچیں — فوٹو محمد عمر گل زرینہ نے گلی کے اختتام پر موجود ایک چھوٹی سی دکان کی نشاندہی کی جس کے اندر خواتین بیٹھی ہوئی خرید و فروخت میں مصروف تھیں۔انہوں نے کہا " ہم سب نے اس خاتون کو دکان چلانے میں مدد کی، اس کا شوہر بیرون ملک چلا گیا تھا تو ہم اس کی دکان پر بیٹھنے لگے تاکہ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بھی پورا کرسکے"۔گل زرینہ نے فخر کے ساتھ کہا " یہاں یہ غیرمعمولی نہیں سمجھا جاتا کہ ایک خاتون اپنی دکان خود چلائے اور کوئی بھی اسے ہراساں نہیں کرتا یا اسے نکل جانے کا نہیں کہتا"۔خواتین کے ایک گروپ کا رات گئے بیٹھنے کا سن کر سب سے پہلے ان کی سیکیورٹی کے سوالات اٹھنے لگتے ہیں مگر اس پہلو کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور باہر سے آنے والوں کو باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔اس آبادی کا ترکہ نئے آنے والوں تک بھی پھیل چکا ہے اور مارواڑی برادری برے عناصر سے اپنے طریقے سے نمٹنا جانتی ہے۔ان گلیوں میں آنے والے کسی بھی تخریب کار سے فوری طور پر اس کے آنے کا مقصد پوچھا جاتا ہے اور اطمینان بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں خواتین کی جانب سے اجتماعی اقدام کیا جاتا ہے۔ رات کے وقت جمع خواتین — فوٹو یمنیٰ رفیع پچاس سالہ فہمیدہ سلطانہ ایک رات پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتارہی ہیں جس میں خواتین نے چپلوں کے ساتھ ایک شخص کا تعاقب کیا تھا" ایک بار ایک شخص بار بار ان گلیوں سے گزر رہا تھا اور خواتین کو گھور رہا تھا، یہ سلسلہ کچھ منٹ تک چلتا رہا جس کے بعد ہم سب شکوک کا شکار ہوگئیں اور ہم نے یہاں سے چلے جانے کی ہدایت کی۔ اس نے خراب رویے کا اظہار شروع کردیا اور ہم اس طرح کا رویہ کسی صورت برداشت نہیں کرتیں"۔فہمیدہ نے یہ اپنے گھر کے باہر بنی سب سنگ مرمر کی نشست پر آرام کرتے ہوئے بتایا۔ وہ اس وقت چائے سے لطف اندوز ہورہی تھیں جب کہ دیگر خواتین ان کے پاس آکر مصافحہ کرتیں اور علیک سلیک کرتیں۔دیگر خواتین نے جمع ہوکر پرجوش انداز میں ماضی کے ان واقعات کا احوال سنایا جب انہوں نے خود کو ملزمان یہاں تک کہ سیاسی جماعت کے ورکرز سے بچایا تھا جو اس علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔فہمیدہ نے ایک جھگڑے کا احوال سنایا جو سیاسی ورکرز اور علاقے کے رہائشیوں کے درمیان کچھ سال قبل عیدالاضحیٰ کے موقع پر کھالوں کے ' عطیات' اکھٹا کرنے کے موقع پر ہوا تھا۔مارواڑی برادری نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور جب ورکرز مشتعل ہوگئے تو بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ان کے سامنے آگئے۔ ان چند ورکرز کا سامنا پوری برادری سے ہوا جو پرعزم، خطرات یا طاقت سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔فہمیدہ بتاتی ہیں " جب ہمارے مرد بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تو پارٹی اراکین پر دباﺅ بڑھ گیا، ہم اپنے گھروں میں تھیں اور نیچے جھگڑے کو دیکھ سکتی تھیں، ہم سب (خواتین) نے اکھٹے ہوکر بوتلیں اور جو کچھ ملا سیاسی ورکرز پر برسانا شروع کردیا، انہیں ہمیں دھمکانے کا کوئی حق نہیں تھا"۔ رنچھوڑ لائن کی ایک مصروف شاہراہ— وائٹ اسٹار فوٹو مارواڑی نہ صرف اپنی برادری کے کبھی نہ ٹوٹنے والے تعلق اور خواتین کی ترقی پر فخر کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے بزرگوں کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے بھی مسرت محسوس کرتے ہیں جس کے لیے وہ جانے جاتے تھے جو ہے سنگی تعمیرات۔کراچی میں بیشتر تعمیرات کے شاہکار کا کریڈٹ انہیں دیا جاسکتا ہے۔ گزدرآباد کے علاقے میں کراچی میں پائی جانے والی قدیم ترین مساجد میں سے ایک موجود ہے، مجموعی طور پر اس علاقے میں پانچ مساجد ہیں جن کا سنگی کام یہاں کے رہائشیوں کے بزرگوں نے کیا تھا۔رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ جامع مسجد بیچ والی کی تعمیر کو ڈھائی سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے جبکہ جامع مسجد بادامی 1875 سے موجود ہے۔ بنگی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک صدی پرانی ہے، جبکہ سب سے 'کم عمر' جامع مسجد پاکستان ہے جو 1940 میں قرارداد پاکستان کی یاد میں تعمیر کی گئی۔ فوٹو محمد عمر مارواڑی برادری کو اپنے حسب نسب کی تاریخ بہت اچھی طرح یاد ہے کہ یہاں تک کہ بچوں کی زبانوں کی نوک پر بھی پوری تاریخ رواں رہتی ہے۔شاہینہ گزدر نامی خاتون بتاتی ہیں " اس علاقے کا نام ہاشم گزدر کے نام پر رکھا گیا جو 1941 اور 1942 میں کراچی کے میئر تھے، تقسیم سے پہلے وہ سندھ کے وزیر رہے اور بعد میں پاکستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بن گئے"۔وہ بتاتی ہیں کہ گزدر نام درحقیقت ایک خطاب تھا جو ہاشم گزدر کے والد کو راجھستان کے راجا نے شاہی محل میں ایک خوبصورت عمارت تعمیر کرنے پر دیا۔یہاں کے لوگوں سے بات کرنے کے دوران بیشتر اپنی جماعت کا حوالہ اکثر دیتے ہیں جو برادری کے لیے متحرک انداز میں سرگرم ہے، اس جماعت کے ایک رکن سلمان گزدر بتاتے ہیں " تمام امور پر غور اور فیصلہ مشاورت کمیٹی کرتی ہے، اب چاہے وہ گھریلو تشدد کا معاملہ ہو طلاق یا چوری کا"۔وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ایک تیرہ رکنی ٹیم کا انتخاب مختلف امور جیسے کھیل، صحت، تعلیم اور مقامی مساجد وغیرہ کے لیے ہوتا ہے۔ جماعت کا اپنا آئین ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ برادری کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھے۔سلمان کے مطابق " ہمارے اپنے شناختی کارڈز بھی ہیں جو قومی شناختی کارڈز سے ملتے جلتے ہیں"۔انہوں نے اپنا کارڈ بھی دکھایا جس میں ان کی قومیت مارواڑی سلاوٹ تحریر تھی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس علاقے میں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور یہاں کی گلیوں میں مقامی رہائشی لوٹ مار کے ڈر سے آزاد ہوکر آزادی سے گھومتے ہیں۔ فوٹو یمنیٰ رفیع فہمیدہ بتاتی ہیں " میرا گھر گراﺅنڈ فلور پر ہے اور میں دوپہر کو اپنا دروازہ کھول کر بھی سو سکتی ہوں، بچے باہر کرکٹ کھیلتے ہیں اور وہ پانی پینے کے لیے اس وقت آتے ہیں جب میں سو رہی ہوتی ہوں، یہ پوری آبادی ایک دوسرے پر اعتماد کرتی ہے"۔انہوں نے مزید کہا " ہم ضرورت کے وقت اکھٹے کھڑے ہوتے ہیں، اگر کسی کو خون کی فوری ضرورت ہو تو اس کا اعلان مسجد میں کیا جاتا ہے اور لوگوں کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آتا ہے۔ میں فخر سے دعویٰ کرسکتی ہوں کہ ہمارا کوئی پڑوسی رات کو بھوکا نہیں سوتا"۔مارواڑی برادری کا شادیوں کے انعقاد کا اپنا منفرد طریقہ ہے، وہ ہال بک نہیں کراتے بلکہ اس تقریب کا انعقاد مرکزی شاہراہ پر کرتے ہیں اور وہاں برادری کے ہر ایک فرد کو آنے کی اجازت ہوتی ہے۔پیشے کے لحاظ سے ایک استاد روبینہ الطاف بتاتی ہیں " ہماری تمام شادیوں کا انعقاد ہفتہ کو ہوتا ہے کیونکہ ہم نے صرف اس روز کے لیے شاہراہ استعمال کرنے کی اجازت حکومت سے لے رکھی ہے"۔ علاقے کی مقبول شخصیت فہمیدہ سلطانہ — فوٹو یمنیٰ رفیع اگرچہ مرد تمام تقاریب میں شریک ہوتے ہیں تاہم یہ خواتین ہیں جنھیں تمام امور پر بالادستی حاصل ہے، تحائف اور کھانا تقسیم کیا جاتا ہے مگر اصل جشن نصف شب کے بعد شروع ہوتا ہے۔اس وقت جب پورا شہر نیند کی وادیوں میں گم ہوتا ہے اور روشنیاں مدھم ہوجاتی ہیں گزدرآباد کی مرکزی شاہراہ روشن ہوجاتی ہے، ڈھول بجانے والے اپنا کام شروع کرتے ہیں، خواتین اور بچے جگمگاتے ملبوسات اور زیورات پہنے رقص شروع کرتے ہیں اور ہر اس جوڑے کی شادی کا جشن منایا جاتا ہے جو " قبول ہے" کہتے ہیں ۔ جب مرد گھر چلے جاتے ہیں تو خواتین اپنا جشن ختم کرکے طلوع ہوتے سورج کے ساتھ دلہن کو دلہا کے پاس لے جاتی ہیں۔