کرکٹ کی واپسی خوش آئند، مگر...
مارچ 2009 میں جب دہشتگردوں نے پاکستانیوں کی واحد تفریح کرکٹ پر حملہ کیا تو پاکستان سے بین الاقوامی کرکٹ 6 سال کے لیے روٹھ گئی۔ یہ کفر اس وقت ٹوٹا جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے فعال چیئرمین نے باتوں سے زیادہ کام پر توجہ دی، اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کو دورہ پاکستان پر آمادہ کیا۔
لیکن پاکستان میں کرکٹ شائقین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ 18 کروڑ کی آبادی والے ملک میں کیا کرکٹ صرف 2 کروڑ لوگوں کے لیے بحال کی گئی ہے؟ کیا سیریز کا یہ شو مضبوط تعلقات کے زور پر ٹکٹس حاصل کرنے والوں کے لیے تھا، یا محنت مزدوری کر کے میچ کے لیے پیسے جمع کرنے والوں کے لیے؟ کیا یہ قدم صرف مالی نقصان کے ازالے کے لیے اٹھایا گیا یا ملک کے ویران کرکٹ گراؤنڈز کو آباد کرنے کے لیے؟
اس سیریز کو سب سے آرامدہ انداز میں صرف 3 ہی طرح کے لوگ دیکھ پائے۔ ایک وہ جو لاہور میں رہتے ہیں۔ دوسرے پاکستان کے وہ صاحبِ ثروت لوگ، جو ڈومیسٹک فلائٹس اور آرام دہ ہوٹلز پر ہزاروں روپے خرچ کر سکتے ہیں، اور تیسرے وہ، جو اپنے گھروں میں ٹی وی پر میچ دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اتنے بڑے ملک کے کونے کونے سے شائقین میچ دیکھنے کے لیے ایک شہر تک نہیں پہنچ سکتے۔
پڑھیے: زمبابوے ٹیم کی آمد: غلطی کی گنجائش نہیں
ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا خواب صرف ایک شہر یا صوبے کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا تھا۔ اپنے ہیروز کو اپنی وکٹوں پر پرفارم کرتا دیکھنے کی خواہش ہر اس شہری کی تھی جو کرکٹ سے جنون کی حد تک محبت کرتا ہے، لیکن سیریز صرف لاہور میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کے باقی شہروں میں رہنے والے کرکٹ شائقین اس تاریخی موقع سے محروم رہ گئے۔
پاکستان کے وہ شہر، جہاں آئے دن وزیروں اور مشیروں کے دوروں کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں، وہاں غیر ملکی ٹیم کو سکیورٹی دینا کیا بڑی بات تھی۔ کیا ہماری حکومت کے پاس صرف ایک شہر کے تحفظ جتنی نفری موجود ہے؟ کیا ہماری پولیس دیگر شہروں میں تحفظ فراہم کرنے کی اہل نہیں؟ کیا کراچی، فیصل آباد، ملتان، سیالکوٹ اور پشاور کے عوام کو حق نہ تھا کہ وہ ہوم کرکٹ سے محظوظ ہوں؟ اور اگر حق تھا تو سکیورٹی حکام اس حق کو یقینی کیوں نہ بنا سکے؟ عوام ایسے بہت سے سوالات کے جواب کے منتظر ہیں۔
جب عوام کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ کرکٹ میچز صرف لاہور ہی میں کیوں منعقد کیے جا رہے ہیں، تو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ دیگر شہروں کے بجائے صرف لاہور میں کھیلنا زمبابوے کی خواہش تھی، اور اس میں پاکستانی حکام کا کوئی کردار نہیں تھا۔
چلیں ہم پی سی بی کی بات پر یقین کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس بات کو تسلیم کر بھی لیں، تو بھی کیا وجہ ہے کہ اس حوالے سے زمبابوے حکومت یا زمبابوے کرکٹ بورڈ کا کوئی اعلامیہ کوئی پریس ریلیز موجود نہیں، جس کے مطابق انہوں نے خود باقی شہروں میں کھیلنے سے معذرت کی ہو؟
لیکن لگتا ہے کہ کرکٹ بحالی کی کوشش کرنے والوں کا مقصد صرف ملک میں کرکٹ بحالی کی خبریں شائع کروانا اور اس انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو جگانا تھا جو ہر معاملے میں پاکستان کرکٹ کی مخالفت میں آگے دکھائی دیتی ہے۔ وہ مقصد تو پورا ہوگیا، پھر چاہے لوگ بلیک میں ٹکٹیں خریدنے پر مجبور ہوئے ہوں یا خرید ہی نہ پائے ہوں، اس سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔
کرکٹ بحالی کا نام دے کر حکام نے کرکٹ کے متوالوں کو خوش ضرور کیا لیکن میچز کے ٹکٹوں کی خرید و فروخت کے معاملات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ سب نے اپنی اپنی جیبیں بھرنے کے لیے اس موقع سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا۔ کہیں ٹیم کی سکیورٹی پر معمور اہلکار ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹ چلاتے دکھائی دیے، تو کہیں کرکٹ بورڈ آفیشلز اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں ریوڑیوں کی طرح ٹکٹس بانٹتے نظر آئے۔
ویڈیو: پاک زمبابوے میچ، ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت
اور پھر ہوا یوں کہ صحیح معنوں میں پاکستان کرکٹ کو پہچان دینے والے کرکٹ شائقین طویل قطاروں میں لگنے کے باوجود گھروں کو لوٹ گئے، اور جنہوں نے دھکے مکے کھا کر ٹکٹس حاصل کیے، انہیں دھوپ اور گرمی میں طویل مسافت طے کر کے میچ کے آغاز سے تین گھنٹے قبل اسٹیڈیم پہنچنا پڑا۔
اس موقع پر خواتین پولیس اہلکاروں نے بھی خوب کام دکھایا، اور بیگ چیک کرنے کے بہانے سیدھی سادی خواتین سے میک اپ کا سامان پار کرتی رہیں، جبکہ کرکٹ بورڈ آفیشلز کی فیملیز وی آئی پی پارکنگ میں ٹھنڈے مشروبات کے مزے لیتی رہیں۔
بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کم سے کم یہ پیغام تو چلا گیا کہ پاکستان میں پر امن ماحول میں کرکٹ کھیلی جاسکتی ہے، لیکن کرفیو نافذ کر کے ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کی مدد لے کر زمبابوے کو دورہ پاکستان کروانے کے اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر کتنا سنجیدہ لیا گیا، یہ تو اس بات سے ظاہر ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اپنے امپائرز اور میچ آفیشلز پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ آئی سی سی کا کوئی کم درجے کا عہدیدار بھی میچ دیکھنے پاکستان نہ آیا۔
حد تو یہ ہے کہ پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور ہندوستان کے بورڈ آفیشلز نے پاکستان آنا تو دور کی بات کسی پریس ریلیز کے ذریعے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر پاکستان کو مبارکباد دینا بھی گوارا نہ کیا۔ ان حالات میں پاکستان کی عوام اور میڈیا ہی ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس اقدام کو سراہتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا پہلا قطرہ گرتے ہی مغرور ہونے والے کرکٹ بورڈ کو نہ تو عوام کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی میڈیا کو کوئی خاص لفٹ دی جارہی ہے۔
اس بلاگ کا مقصد پاکستانی کرکٹ حکام کی توجہ ایک سوال کی جانب دلانا ہے کہ کیا وہ ملک کے دیگر شہروں میں میچز منعقد کیے بغیر، اور دیگر ممالک کے رویوں کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان زمبابوے سیریز سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوگئی ہے؟
پڑھیے: پاک زمبابوے میچ: خودکش حملے کی کوشش ناکام
صرف ایک ٹیم کو بلا کر سکیورٹی کی بیسیوں گاڑیوں کو آگے پیچھے لگا دینے سے کام پورا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں کرکٹ کا سسٹم درست کرنے کے لیے ابھی بھی انتھک محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی خدشات اپنی جگہ، لیکن بین الاقوامی ٹیموں کی حفاظت کرنے والے اہلکاروں کو اس عوام کی عزت کرنے کی ضرورت ہے جو ٹیم کی بس گزرنے کے انتظار میں گھنٹوں بنا اف کیے کھڑے رہنے کو تیار ہیں۔
کرکٹ حکام کو چاہیے کہ زمبابوے کے دورہ پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی سمجھنے کے بجائے کرکٹ بحالی کی جانب پہلا قدم سمجھیں، اور دیگر ٹیموں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
نہ صرف یہ، بلکہ اس بار جو بدنظمیاں ہوئی ہیں، ان سے بھی سبق سیکھتے ہوئے اگلی دفعہ کے لیے زیادہ بہتر انتظامات کریں تاکہ نہ کسی ٹیم کو پاکستان آنے میں ہچکچاہٹ ہو، اور نہ ہی عوام کو میچ دیکھنے کے لیے دھکے کھانے پڑیں۔ تب ہی یہ کہا جا سکے گا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ واقعی بحال ہو چکی ہے۔
فضیلہ صبا ڈان نیوز پر اسپورٹس اینکر ہیں۔ اسپورٹس، خبروں، اور ٹاک شوز میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: FazeelaSaba1@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔