نقطہ نظر

خواتین اور جمہوریت

جن ممالک میں جمہوری مراحل میں خواتین کی شراکت ہے، وہاں دوسرے ممالک کی بہ نسبت ترقی کی شرح زیادہ ہے۔

خیبرپختونخواہ کے عوام کل نئے بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے کر اپنے جمہوری حق کا استعمال کریں گے۔ لیکن یہ انتخابات ایک تاریک سائے کی زد میں نظر آتے ہیں۔ اخبارات میں روزانہ شائع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیدوار، علاقے کے عمائدین، اور مذہبی رہنما آپس میں گٹھ جوڑ کر کے خواتین کو ووٹ دینے سے روک رہے ہیں۔ یہ پریشان کن رجحان اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کا سیاسی کلچر ابھی بھی ان جمہوری روایات سے کوسوں دور ہے جو اس ملک میں جمہوریت کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کا خاصہ رہے ہیں۔

7 مئی کو دیر زیریں میں ہونے والے ایک ضمنی انتخاب کے متعلق مقامی میڈیا نے خبر دی کہ مقامی قائدین کی جانب سے خواتین کے ووٹ دینے پر پابندی کے فیصلے کے بعد 53,817 رجسٹرڈ خواتین ووٹرز میں سے کسی ایک نے بھی ووٹ نہیں دیا۔

کسی جمہوری معاشرے میں ایسی کسی روش کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اسے مکمل طور پر مسترد کیا جانا چاہیے۔ وہ تمام حلقے، جو کثیر جماعتی جمہوریت کے تصور پر یقین رکھتے ہیں، اور جنہوں نے پاکستان میں جمہوری نظام کو مستحکم بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے، انہیں اس روش کو چیلنج کرنا چاہیے۔

پڑھیے: عورت، عزت اور ووٹ

خواتین کو ووٹ دینے سے روکنا کوئی عزت یا فخر کی بات نہیں۔ پاکستانی خواتین مسلح افواج میں خدمات انجام دے رہی ہیں، اور پولیس میں شمولیت اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب خواتین اپنے ہم وطنوں کے تحفظ اور اپنے وطن کی خدمت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا رہی ہیں۔ یہ عظیم قربانی اور خدمت ملک و ملت کے لیے فخر و انبساط کا باعث ہونی چاہیے، اور ان چند گمراہ لوگوں کی وجہ سے ان کا رتبہ کم نہیں ہونا چاہیے جو سمجھتے ہیں کہ اپنی صنف کی وجہ سے وہ ووٹ دینے کی اہل نہیں۔

اس روش کی روک تھام کے لیے اسے محض زبانی طور پر مسترد کرنا کافی نہیں ہو گا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، اور پاکستان میں ہر انتخابات میں ایسا ہوتا ہے۔ اس روش کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے، اور ہم انتخابی اصلاحات کی خصوصی پارلیمانی کمیٹی پر زور دیتے ہیں کہ وہ حالیہ واقعات کی روشنی میں اس پر غور کرے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران امید کی ایک کرن سول سوسائٹی تنظیموں کی جانب سے مذمت اور احتجاج کی صورت میں سامنے آئی ہے، جو خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں میں رونما ہونے والے ان واقعات کو سامنے لانے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے، یا پھر وسیع تر عوامی حلقوں کی توجہ ان واقعات کی جانب مبذول کروانے پر میڈیا کی آمادگی ہے۔

یہ ایک حوصلہ افزا علامت ہے، اور ان حلقوں کو وارننگ ہے، جو سمجھتے ہیں کہ نام نہاد ثقافتی وجوہ کی بناء پر وہ اس روش کا جواز پیدا کر سکتے ہیں، حالانکہ پاکستان میں مختلف سوچ رکھنے والے حلقے بھی موجود ہیں اور اب وہ خاموش رہنے کو تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خاص طور پر مذمت کرنے والوں کی اس صف میں شامل ہونا چاہیے، اور اپنے ان کارکنوں پر پابندی عائد کرنی چاہیے جو ان کی پارٹی کی بنیادی جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کریں۔

مزید پڑھیے: کھانا پکاؤ، گھر کا کام کرو اور مردوں کو ووٹ دو!

کچھ نہ کرنے یا محض دو چار لفظ کہنے سے ایک غیر واضح پیغام ملتا ہے، جس سے نادانستہ طور پر ایک ایسا ماحول پیدا ہونے کے خطرات جنم لیتے ہیں، جو ان سرگرمیوں کے تسلسل اور پھیلاؤ کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن اثرات اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ خواتین ووٹرز کی حق رائے دہی سے محرومی اور ان کے بنیادی حقوق کی شعوری پامالی کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ بیرونی دنیا میں اپنے ان دعووں کو قابلِ اعتبار حیثیت دلا سکے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، جمہوری نظام ارتقاء پذیر ہے، یا پاکستان ترقی کی ایک قابلِ تقلید مثال بننے کا آرزو مند ہے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ پاکستان کس طرح کا ملک بننا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو دنیا کے سامنے کس طرح پیش کرنا چاہتا ہے، ایک بند جمہوریت، یا پھر ایک بھرپور جمہوریت جس میں سب کے حقوق قابل احترام ہوں۔

ترقی کے نقطہ نظر سے خواتین کے ووٹ دینے پر پابندی لگانا اور انہیں مقامی فیصلہ سازی کے عمل میں فعال انداز میں حصہ لینے سے روکنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کے درجنوں ممالک کے تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ خواتین کو سیاست میں بامعنی شمولیت سے محروم کر کے ترقی کے مقاصد حاصل کرنا ممکن نہیں۔ کوئی بھی ملک اپنی خواتین شہریوں کو مکمل طور پر برابر حیثیت دیے بغیر اپنی بھرپور استعداد کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔

ہزاریہ ترقیاتی مقاصد (ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز یا ایم ڈی جی) کی مثال کو ہی لے لیجیے۔ ان ترقیاتی مقاصد کے تحت اپنے طے شدہ اہداف کے حصول میں سب سے زیادہ پیشرفت وہی ملک دکھا رہے ہیں، جہاں مقامی حکومتوں کے فعال نظام قائم ہیں، جو بالخصوص خواتین کی شمولیت پر مبنی ترقی پر زور دیتے ہیں۔ پیشرفت وہیں ہو رہی ہے جہاں ہر طرح کے مقامی کردار مل کر کام کرتے ہوئے مقامی حالات کے مطابق اقدامات کر رہے ہیں، اور مقامی سیاق و سباق کے بارے میں اپنے اجتماعی علم کو استعمال کرتے ہوئے مقامی مسائل کے مقامی حل تلاش کر رہے ہیں۔ خواتین کو اس عمل سے خارج کرنے سے ایک اہم عنصر غیر حاضر رہ جاتا ہے۔

خیبر پختونخواہ کے منتخب بلدیاتی اداروں کو متعدد کڑی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، جس میں خدمات کی بہتر فراہمی کے مطالبات، کمیونٹی کی یکجہتی کا فروغ، طرزِ زندگی آب و ہوا کی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے اور اس کی شدت کم کرنے کے اقدامات، آفات سے نمٹنے کی استعداد میں بہتری، اور کمیونٹیز کی بنیادی ترقیاتی ضروریات کا پورا کرنا شامل ہے۔

جانیے: پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی

خاطرخواہ سیاسی، مالیاتی، اور انتظامی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور منتخب نمائندوں اور مقامی بیوروکریسی کی تکنیکی قابلیت بڑھانا کامیابی کے نسخے کا محض ایک جزو ہے۔ فیصلہ سازی کے عمل میں مقامی کمیونٹیز کے تمام ارکان بالخصوص خواتین کی فعال شمولیت معیارِ زندگی بہتر بنانے اور دیرپا ترقیاتی مقاصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔

خواتین بجا طور پر مقامی کمیونٹیز میں تبدیلی کے اہم ترین سفیر کا کردار کرتی ہیں، اور اگر انہیں اس کردار سے محروم کیا گیا تو ڈر ہے کہ پانچ سال بعد جب خیبرپختونخواہ کے عوام بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کے انتخاب کے لیے دوبارہ ووٹ دینے جا رہے ہوں گے، تو دل میں یہی باتیں ہوں گی کہ ترقی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا اور اہداف پورے نہیں ہوئے۔

اس صورتحال میں جیت کسی کی نہیں ہو گی۔ خیبرپختونخواہ کے مشکل سیاق وسباق میں دیکھیں تو اس سے ان اجتماعی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا جو صوبے میں استحکام کے فروغ کے لیے اس وقت تمام متعلقہ فریق کر رہے ہیں۔ سب کی شمولیت پر مبنی مقامی طرزِ حکمرانی کا اہتمام کیے بغیر استحکام کے جن مقاصد پر اس وقت کام ہو رہا ہے، ان کا حصول کہیں مشکل ہو جائے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

مارک آندرے فرینشے

مارک آندرے فرینشے اقوام متحدہ ترقیاتی ادارہ پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر ہیں، اور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کے لیے کام کرتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: MAFundp@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔