ایگزیکٹ اسکینڈل: کون کتنا ذمہ دار؟
عجب کرپشن کی غضب کہانی ہے۔ جو مستعفی اس پر بھی تنقید اور تحقیر کے نشتر، اور جو کشتیاں جلانے کا بول بیٹھا وہ بھی بچا نہیں۔
بڑے بول کی کہانی بھی کچھ غیر معمولی ہے۔ 2009 میں ایک سعودی صحافی نے کتے کو ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ڈگری کا اعزاز بخشنے کا بھانڈا پھوڑا۔ ثبوت ویب سائٹ پر مشتہر کرنے پر ایگزیکٹ کے لیگل ایڈوائزر عبدالکریم اینڈ کمپنی نے نوٹس بھی بھیجا، اور ثبوت ہٹانے کی دھمکی بھی دی۔
خاتون صحافی نے تمام ثبوت پیپلزپارٹی کی حکومت کو ای میل بھی کر دیے، لیکن تب حکومت کو لالے پڑے، نہ ہی ایف آئی اے کو بھنک پڑی۔ آج جب میڈیا چینلز، حکومت، اور ایف آئی اے جعلی ڈگریوں کے کاروبار کو پاکستان کی ہتک سے تعبیر کر رہے ہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ ذمہ داران بروقت اقدام کرتے تو آج نہ انہیں اور نہ ہی قوم کو ندامت اٹھانا پڑتی۔ آج درجنوں صحافیوں کے ضمیر ملامت کرتے، اور نہ ہی سینکڑوں ملازمین نوکری سے نکالے جانے کا عذاب جھیلتے۔
پڑھیے: شعیب شیخ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے
لیکن میں نے اپنے تئیں جب ایگزیکٹ کے کردار کو جانچنے کی سعی کی، تو ہوش ربا حقائق نے چونکا کر رکھ دیا۔ آپ ملاحظہ کیجیے، ایگزیکٹ کا 2007 میں ٹرن اوور 7 کروڑ 91 لاکھ 59 ہزار، 2008 میں 3 کروڑ 12 لاکھ 55 ہزار، 2009 میں 4 کروڑ 50 لاکھ 70 ہزار، 2010 میں 50 کروڑ 70 لاکھ، 2011 میں 89 کروڑ 80 لاکھ، 2012 میں 1.038 ارب، اور 2013 میں 1.582 ارب ظاہر کیا گیا۔
یہ کل پانچ ارب سے زائد کا کاروبار بنتا ہے، اور اس رقم پر 15 فیصد ٹیکس 750 ملین یعنی 75 کروڑ بنتا ہے مگر ٹیکس ادائیگی کی بجائے رقم ریفنڈ کا کلیم کر دیا۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ کل ٹرن اوور 100 روپے تھا تو ایف بی آر نے صرف دو روپے کے ٹیکس کا تو آڈٹ کروایا، مگر ان 98 روپوں کے ذرائع کا سوال تک نہ کیا۔ ایگزیکٹ نے اپنے کاروبار میں کمپیوٹر کنسلٹینسی، کمپیوٹر فیسیلیٹی مینیجمنٹ، اور آئی ٹی سہولیات کو ذرائع آمدن ظاہر کیا مگر ایف بی آر نے تحقیقات کے بجائے آنکھیں موند کر رقم ریفنڈ کروانے کی معمولی تفتیش کی۔
ایف بی آر کے سیکشن 122 (5A) کے تحت درخواست گزار کی جانچ پڑتال لازم ہے۔ اس وقت ایف بی آر کے اسیسمنٹ آفیسر امتیاز سولنگی تھے۔ انہوں نے2007 اور 2008 کو Time Barred کہہ کر نظر انداز کر دیا۔ اب اس کا آڈٹ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی ان دو سالوں کی رقم پر ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ حیرت انگیز حقیقت یہ بھی کہ ایف بی آر نے 2009 میں 26 لاکھ، 2010 میں 63 لاکھ، اور 2011 میں 46 لاکھ ٹیکس کی تشخیص کی، لیکن اس کے باوجود ٹیکس لینے میں ناکام رہا۔
المیہ یہ کہ امتیاز سولنگی اس وقت ایڈیشنل کمشنر کے عہدے پر تعینات تھے۔ پھر انہیں 19 ویں سے 20 واں سکیل دے کر کمشنر بنا دیا گیا۔ یہ اب بھی دو زونز میں بطور کمشنر خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کی فائل فائنل نوٹیفکیشن کے لیے وزیرِ اعظم کے دستخطوں کی محتاج ہے۔
مزید پڑھیے: کئی شواہد ابھی سامنے نہیں لائے، ڈیکلن والش
اب سوال یہ ہے جہاں ایگزیکٹ پر آج انگلیاں اٹھ رہی ہیں، وہیں ایف بی آر اور اس وقت کی حکومت کا گریبان کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ جہاں ایگزیکٹ حکام کے خلاف مقدمات و تحقیقات ضروری ہیں، وہیں امتیاز سولنگی اور ایف بی آر سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر ایگزیکٹ کا دھندا ملکی پیشانی پر بدنما داغ ہے، تو ان لوگوں کے بھیانک کردار کی سزا کون تجویز کرے گا؟ جعلی انکم ٹیکس ریٹرن پر قانون کا سہارا تو درکنار، نوٹس تک جاری کرنا گوارا کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا اس کالے دھن میں ایگزیکٹ کے ساتھ ہمارے ادارے بھی شریک جرم ہیں؟
ان سوالات کے جوابات کے بغیر اس تاریخی اسکینڈل سے مکمل طور پر کبھی بھی پردہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
|
مہر بخاری عباسی ڈان نیوز کے پروگرام نیوز آئی
کی میزبان ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: meherbokhari@ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔