سوشل میڈیا: جھوٹ پھیلانے کا آسان ذریعہ؟
آج سے بیس برس قبل جب میں سوئیڈن آیا تھا تو اس وقت ریل گاڑیوں، بسوں، ہوائی جہازوں، اور انتظار گاہوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا۔ کتب بینی کا یہ شوق دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ یہاں لائبریری ہر گھر کا ایک لازمی حصہ ہے اور ہر دوسرے شخص کے پاس کم از کم ایک کتاب ضرور ہوتی ہے جسے وہ سفر کے دوران یا انتظار کے لمحات میں مطالعہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہسپتالوں اور دوسری انتظار گاہوں میں کتابیں رکھی ہوتی ہیں جنہیں وہاں بیٹھنے والے اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
لیکن اسمارٹ فون نے آکر یہاں کے لوگوں کے ہاتھ سے بھی کتاب چھڑا دی ہے، اور اب ریل گاڑیوں، بسوں، اور انتظار گاہوں میں بیٹھے لوگ اپنے اسمارٹ فون کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں۔ اس سے کتاب بینی کا شوق کم ضرور ہوا ہے، لیکن ابھی بھی ختم نہیں ہوا، اور نہ ہی پاکستان کی طرح کتابوں کی دوکانیں تبدیل ہوکر جوتوں کی دوکانیں بن گئی ہیں۔
اسمارٹ فون میں چونکہ ہر طرح کی دلچسپیاں اور سہولتیں موجود ہوتی ہیں اس لیے یہ دور جدید میں ہر شخص کی ضرورت بن چکا ہے۔ گھر میں کھانا نہ بھی پکا ہو تو بچے صبر کر لیں گے، لیکن اگر WiFi میں خلل ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ اسی aسمارٹ فون کی بدولت معلومات کی فراہمی اور سوشل میڈیا کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ مگر جہاں اس کے مثبت پہلو ہیں، وہیں اس کے منفی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پڑھیے: سوشل میڈیا حقیقی رشتے ٹوٹنے کا سبب
دوسروں سے ملنے والی معلومات کو آگے پہنچانے اور مزید پھیلانے کے لیے صرف ایک بٹن دبانا پڑتا ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط، کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی نہیں، بطورِ خاص جب معلومات مذہبی نوعیت کی ہوں، جن میں بہت سے ثواب کی نوید، یا پھر شیطان کے روکنے کا ذکر کیا گیا ہو، اس وقت تو سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بغیر تحقیق و تصدیق کے بس شیئر کیے جاتی ہے۔
مذہب، صحتِ عامہ، سماجی شعبہ، اور دیگر امور کے بارے میں بہت سی غلط معلومات باقاعدگی سے پھیلائی جارہی ہیں، اور قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی اسی رو میں بہے چلے جارہے ہیں حالانکہ ہمارے رسول اکرم ﷺ نے بھی بغیر تصدیق کے بات آگے پھیلانے سے منع کیا ہے۔
دور حاضر میں کوئی بھی شخص میڈیا سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، کیونکہ یہ دور ہی میڈیا کا ہے۔ اخبارات، ٹیلی وژن، ویب سائیٹس، اور دوسرے ذرائع سے خبروں اور معلومات کا ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ ہمارے لیے سب تک رسائی بھی ممکن نہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ میڈیا کی ہی بدولت عوام کو ہر شعبہ زندگی کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ دنیا کے کسی خطہ میں کچھ بھی ہو، پلک جھپکنے کی دیر میں روئے زمین کا ہر شخص اس سے آگاہ ہوجاتا ہے، جبکہ ماضی میں اس کے لیے بہت وقت درکار ہوتا تھا۔ میڈیا ہی کی بدولت عوام الناس کو سیاست، صحت، تعلیم، مذہب، کھیل، سماجی امور غرض ہر ایک شعبہ کے بارے میں نت نئی معلومات باآسانی میسر ہیں۔
مزید پڑھیے: سوشل میڈیا وزن کم کرنے میں مددگار
یہ میڈیا کا بہت ہی مثبت اور اہم کردار ہے لیکن ساتھ ہی تصویرکا دوسرا رخ بھی ہے کہ بعض اوقات میڈیا اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتا، اور غلط معلومات کو بھی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ سینکڑوں اخبارات اور ٹی وی چینلز کے اس دور میں اب گنے چنے اخبارات اور ٹی وی چینل ہی رہ گئے ہیں جو مستند اور قابلِ اعتبار ہیں۔ میڈیا میں پھر بھی ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خبروں اور معلومات کی تصدیق کے بعد ہی اسے جاری کریں، لیکن سوشل میڈیا بے لگام ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا سے ہر طرح کی معلومات، خبریں، اور مواد بغیر کسی تصدیق کے ایک وائرس کی طرح پھیلتا جاتا ہے اور کوئی تصدیق و تحقیق کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتا۔
کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست نے مجھے ایک تصویر بھیجی، جس میں فوٹوشاپ کی مدد سے ایڈیٹنگ کر کے ایک چیز کو معجزے کا روپ دیا گیا تھا۔ میرے دوست کا اصرار تھا کہ میں اس بارے میں لکھوں تاکہ دنیا کو اس معجزے کا علم ہو۔ جب میں نے اس تصویر پر تحقیق کی تو کمپیوٹر کے کمال کی کہانی سامنے آگئی، لیکن اپنے دوست کو براہ راست غلط کہنے کے بجائے انہیں اس کی تصدیق و تحقیق پر لگا دیا جو آخر کار ان پر بھی آشکار ہوگئی۔
اسی طرح چند دن قبل میرے ایک دیرینہ دوست جو کہ خود ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر رہے ہیں، نے سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک پیغام دیا کہ رات ساڑھے بارہ بجے کے بعد موبائل فون بند کردیں کیونکہ خلا سے بہت خطرناک قسم کی تابکاری اور دوسری لہریں زمین پر آرہی ہیں جو موبائل فون کے ذریعے انسان کو نقصان پہنچائیں گی۔
پیغام پڑھ کر اس کی تصدیق کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ بات درست نہیں تھی۔ جس پر انہیں مطلع کیا تو انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی کہ انہوں نے بغیر تصدیق کیے اسے آگے بھیج دیا ہے۔ ان کا غلطی تسلیم کرنا اپنی جگہ، لیکن ان کا پھیلایا ہوا پیغام نہ جانے کہاں کہاں تک پہنچا ہوگا، اور لوگوں نے اس سے کیا اثر لیا ہوگا، اس کا تدارک تو نہیں ہوسکتا۔
اسی نوعیت کی اور بہت سی معلومات اور اطلاعات آئے روز گردش میں رہتی ہیں، جنہیں لوگ بغیر تصدیق کے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں کوئی خود ساختہ کرامت پیش کی جاتی ہے، تو کہیں خود ساختہ روایات۔
جانیے: سوشل میڈیا کروا سکتا ہے آپ کو ملازمت سے برطرف
ایک اور انتہائی خطرناک عمل صحت کے بارے میں غلط معلومات پھیلانا ہے جہاں ذیابیطس، بلڈ پریشر، سرطان اور بہت سی دوسری بیماریوں کا مستقل علاج تجویز کیا گیا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ دنیا میں ان بیماریوں کا کوئی مستقل علاج نہیں، لہٰذا اگر کسی کی دی گئی غلط معلومات کی بنا پر کوئی مریض عمل کر کے اپنی صحت اور خراب کر بیٹھے تو کون ذمہ دار ہے؟
خدارا لوگوں کی صحت سے کھیلنا بند کردیں۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا جب میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی معروف ادیب، صحافی، اور ڈرامہ نگار، جنہیں سوشل میڈیا پر کافی لوگ فالو کرتے ہیں، نے ذیابیطس کے علاج کے لیے دیسی انڈوں کو نمک میں دبا کر کھانے کا مشورہ دیا۔ بہت سے لوگوں نے ان کی معلومات کو دوسروں سے شیئر بھی کیا۔ ادیب اور صحافی معاشرے کی رہنمائی کرتے ہیں، لیکن جب ہمارے دانشور ایسی غلط معلومات کو ثواب سمجھ کر آگے پھیلا رہے ہوں، تو ہم کتنا افسوس کریں؟
سائنس کا معمولی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ ذیابیطس کا تعلق جسم میں شکر کے میٹابولزم سے ہے جس کے لیے انسولین یا شوگر کی ادویات سے ہی علاج ممکن ہے، اور کوئی ایسی دوا موجود نہیں کہ اسے کچھ عرصہ کھا لیں تو ذیابیطس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ انڈے اور نمک کھانے سے تو شوگر کا مرض اور بڑھ جائے گا کیونکہ ذیابیطس کے اکثر مریضوں کو بلڈ پریشر اور خون میں کولیسٹرول کی زیادتی بھی ہوجاتی ہے جبکہ نمک اور انڈے ان دونوں میں اور زیادتی کا باعث بنیں گے۔
برائے مہربانی معالج مت بنیں، یہ جن کا کام ہے، انہی کے سپرد رہنے دیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ آج کے دور میں معلومات آگ کی طرح پھیلتی ہیں، اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ بغیر اطمینان اور تصدیق کے سوشل میڈیا پر دی گئی کوئی بھی معلومات شئیر یا Like نہ کریں بلکہ اس طرح کی معلومات اور پیغام دینے والے کو آگاہ کریں کہ ایسی چیزیں آگے پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ہماری اس کوشش سے یہ سلسلہ تھم جائے؟ اس صورت حال کا تدارک کرنے کی کوشش ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
عارف محمود کسانہ سویڈن کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں۔ وہ کالم نگار اور صحافی ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے منتظم بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: arifkisana@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔