پاکستان

اسلام آباد کو گرمی کی لہر سے خطرہ نہیں

مارگلہ اور نمک کا پہاڑی سلسلہ گرم ہواؤں سے دارالحکومت کو محفوظ رکھتی ہیں۔

اسلام آباد: ہندوستان کے میدانی علاقوں میں شدید گرمی کی لہر برقرار ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی اموات بھی ہوچکی ہیں، تاہم پاکستان کو اس لہر سے فوری طور پر خطرے کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں یورپ اور وسطی ایشیاء سے آنے والی سرد ہواؤں کا سلسلہ جاری ہے۔

بلکہ اسلام آباد اور پوٹھوہار خطے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مشرق سے آنے والے موسمی نظام سے متاثر نہیں ہوتے۔

ہمارے مشرقی پڑوسی ملک کی میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ وسطی اور جنوب مشرقی ریاستوں میں گرمی کی شدت سے تقریباً 800 اموات ہوچکی ہیں۔

یہاں تک کہ ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرگیا۔

منگل کی رات تقریباً آٹھ بجے موسم کا حال بتانے والی ویب سائٹس ہندوستانی دارالحکومت کا درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ بتارہی تھیں، اس وقت ہوا میں نمی کا تناسب محض 9 فیصد تھا اور ہوا 13 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سست رفتار سے چل رہی تھی۔

محکمہ موسمیات کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ ’’اس طرح کی صورتحال کسی تندور کے انتہائی قریب کھڑے ہونے کے مشابہہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں درجہ حرارت میں خطرناک سطح تک اضافہ ہورہا ہے۔ اگرچہ منگل کو دن کے وقت درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، تاہم سورج غروب ہونے کے بعد اس میں کمی آتی گئی اور رات کے وقت یہ تقریباً 26 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوگیا۔

محکمہ موسمیات کے عہدے دار نے کہا ملتان کے علاقے میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کے درمیان خاصے فرق کی وجہ اس خطے کا جغرافیہ ہے، جہاں صحرا میں ریت تیزی سے گرم ہوتی ہے، اور تیزی کے ساتھ ہی ٹھنڈی بھی ہوجاتی ہے۔

شمالی ہندوستان اور پاکستانی پنجاب میں جہلم تک کے نچلے میدانی علاوں میں دوپہر کے بعد سے مغرب سے آنے والی خشک اور گرم ہوا ’لو‘ چلنے لگتی ہے۔

یہی خطرناک رجحان ہر سال ہیٹ اسٹروک اور پانی کی کمی کی وجہ سے بہت سے اموات کا سبب بنتا ہے۔

نمک کے پہاڑوں نے پوٹھوہار خطے سے ناپسندیدہ موسمی نظام کو دور رکھنے کے لیے ایک رکاوٹ کھڑی کررکھی ہے۔

دوسری دفاعی لائن اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیاں ہیں۔ یہ دونوں پہاڑی سلسلے ناصرف ہلاکت خیز لو کو دور رکھتے ہیں بلکہ موسم گرما کے مہینوں کے دوران ملک کے دیگر حصوں کی بہ نسبت درجہ حرارت کو کم رکھنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے عہدے دار نے کہا ’’زمینی سطح کے قریب ہونے کی وجہ سے ’لو‘ نمک کے پہاڑوں کو پار نہیں کرپاتی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہی وہ اہم وجہ ہے کہ اس خطے میں موسم گرما کا درجہ حرارت نمک کے پہاڑوں کی دوسری جانب کے علاقوں کے مقابلے میں کم رہتا ہے۔

منگل کو موسمیاتی اعدادوشمار سے ظاہر ہورہا تھا کہ جہلم میں درجہ حرارت منڈی بہاؤالدین کے مقابلے میں کم از کم دو ڈگری سینٹی گریڈ کم تھا۔ واضح رہے کہ منڈی بہاؤالدین نمک کی پہاڑیوں سے پہلے واقع آخری شہر ہے۔ اس سے مزید آگے بڑھیں تو اسلام آباد میں درجہ حرارت چار ڈگری سینٹی گریڈ گر گیا تھا۔

محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار سے منگل کے روز منڈی بہاؤالدین اور اسلام آباد کے درمیان چھ ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق ظاہر ہورہا تھا۔

مذکورہ عہدے دار نے بتایا کہ ’’پوٹھوہار کا خطہ پنجاب کے میدانی علاقوں کے مقابلے میں ٹھنڈا ہے۔‘‘

شمال سے آنے والی ٹھنڈی اور مرطوب ہوائیں موسم گرما کے جھلسادینے والے مہینوں میں دارالحکومت کو سکون فراہم کرتی ہیں۔

مارگلہ اور گلیات میں گھنے درخت نمک کے پہاڑوں کے شمالی علاقوں میں رطوبت میں اضافہ کرکے موسم گرما کو قابل برداشت بناتے ہیں۔

اگرچہ بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہوا میں نمی کی وجہ سے گھٹن میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہوا میں کچھ نمی کا برقرار رہنا انسانی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

ہوا میں انتہائی کم رطوبت کی وجہ سے جسم میں نمی کم ہوجاتی ہے جو جلد کو حساس اور خارش زدہ بنادیتی ہے۔

تاہم ہوا میں نمی کا بہت زیادہ تناسب بھی بلند درجہ حرارت کے ساتھ بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔اس لیے کہ اس کی وجہ سے پسینہ خشک نہیں ہوپاتا۔

محکمہ موسمیات کے عہدے دار نے موسمیاتی پیٹرن کی وضاحت کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ منگل کے روز لاہور میں ہوا میں نمی کا تناسب 10 فیصد تھا، جس کا مشاہدہ پچھلی رات پاکستان اور زمبابوے کے ایک روزہ میچ کے دوران کھلاڑیوں کے چہرہ سے کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اسلام آباد میں نمی کا تناسب 29 فیصد رہا، جہاں شامیں زیادہ خوشگوار ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہوا میں نمی کا تناسب جہلم میں 61 فیصد اور منڈی بہاؤالدین میں 13 فیصد تھا۔

سردیوں کے دوران پوٹھوہار کا خطہ شدید دھند کو بھی روکتا ہے، جو عام طور پر میدانی علاقوں میں پھیلی ہوتی ہے۔ یہ بھی نمک کی پہاڑیوں کی جانب سے کھڑی کی گئی قدرتی رکاوٹوں کی بدولت ہے۔

محکمہ موسمیات کے عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ ’’یہ دھند پنجاب میں پانی کے بڑے ذخائر سے اُٹھنے والے بخارات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جب درجہ حرارت صفر کے قریب پہنچتا ہے تو پانی بخارات کی میں تبدیل ہوکر دھند کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔‘‘