ہمارے گلزار
وہ زمانہ جب زمین سانجھی اور راستے یکجا تھے، اس دور کی علامتیں اب ناپید ہو چلیں۔ غیر منقسم ہندوستان میں لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے آزاد تھے، پھر دور بدلا، حالات بدلے، ہجرتیں ہوئیں اور کوئی کہیں سے کہیں چلا گیا۔ اس دور کی منظر کشی کرنے والے لوگ اب بہت کم ہیں، اور آج کی تحریر ایسے ہی تہذیبی شخص کے تذکرے پر مبنی ہے۔
ہندوستان میں بسنے والے پاکستان کے اس عاشق کا نام 'گلزار' ہے، جنہوں نے کسی ایک طرف کا ہونا منظور نہیں کیا۔ وہ جتنے ہندوستانی ہیں، ان کے دل میں اس سے کہیں زیادہ چاہت پاکستان کے لیے ہے۔ ان کی آواز سے لے کر قلم سے تخلیق ہونے والے ہر لفظ میں یہ احساس اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہے۔ گلزار اپنے لہجے میں 'گل' ہیں اور فن میں 'زار' بھی۔ اسی لیے پاکستانیوں نے بھی ان کے قدموں میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا۔
گلزار کی نظموں میں محبت خوشبو بھرے لہجے میں کلام کرتی ہے۔ ان کے قلم سے تخلیق ہونے والے مکالمے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے، گویا خیال اور حقیقت کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔ ان کی آواز میں صدیوں کے سفر کی ایسی مسافت سنائی اور دکھائی دیتی ہے، جس نے ہزار لہجوں کے موسم پڑھے ہوں، اور ان گنت خوشبوؤں کو اپنے اندر بسایا ہو۔