پکوان کہانی: چائے، گرم چائے
چائے سے برصغیر کے رومان کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انگریزوں نے چائے ٹائم ایجاد کیا ہو مگر دیسیوں نے اس کا گرمجوشی سے استعمال کیا اور اس مشروب کو برصغیر کے طرز زندگی کا جزو بنالیا۔
آسمانوں پر بننے والے متعدد جوڑوں کو دنیاوی شکل چائے کے ایک کپ پر ملی، بہترین دوست بننے کا عمل چائے کے ایک کپ پر ہوا، دفتری وقفے (جن سے ہم نوے کی دہائی میں ڈان کے دفتر ہارون ہاﺅس میں لطف اندوز ہوتے تھے) کے دوران ہمیشہ برقرار رہنے والی دوستی کا آغاز بھی چائے کے کپس سے ہوا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو واحد چیز لوگوں کے چائے سے تعلق کے جوہر اور تاریخ کو بیان کرسکتی ہے وہ چائے کا ایک کڑک کپ خود ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ 20 ویں صدی کے آغاز تک برصغیر کے رہائشیوں میں سے اکثریت چائے بنانے کے فن سے ناآشنا تھی۔
کھانوں کی برطانوی تاریخ دان لزی کولنگھم کے مطابق "برصغیر کے عوام میں چائے پینے کا رجحان پیدا ہونے کی وجہ بیسویں صدی کے ہندوستان میں پہلی بڑی مارکیٹنگ مہم تھی۔ برطانوی ملکیت میں موجود انڈٰین ٹی ایسوسی ایشن نے لوگوں میں ایک نئی عادت کو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھایا اور پھر اسے پورے برصغیر تک توسیع دے دی۔"
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1800 تک برصغیر کے لوگ چائے کو ایک دوا تصور کرتے تھے۔ اس زمانے میں یہ ادویات کی الماری سے متعلق سمجھی جاتی تھی، بالکل ایسے ہی جیسے چوتھی صدی کے چین کے ابتدائی چائے پینے والے افراد جو اسے سردرد، جوڑوں کے درد اور ادویات کی تاثیر بڑھانے کے لیے بطور ہربل نسخے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
1700 کی ابتدا میں چائے برطانیہ کے اعلیٰ طبقے میں ایک ہربل جز بن چکی تھی اور بہت جلد اسے ہر ایک کے لیے فیشن ایبل مشروب کا درجہ مل گیا۔ مغرور خواتین انگلش دوپہروں میں کیکس اور بسکٹوں کے ساتھ وائن کی جگہ چائے پینے کو ترجیح دینے لگی تھی۔ چائے پینا ان کے لیے اپنے بہترین چینی برتنوں کی نمائش کا موقع بن گیا تھا لہذا ٹی ٹائم کو ایجاد کیا گیا۔
لزی کولنگھم اپنی کتاب 'Curry' میں تحریر کرتی ہیں: "اب چائے متوسط طبقے کے طرز زندگی میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ بریڈ، مکھن، اور کیک کے ساتھ پیش کی جانے والی چائے متوسط طبقے کی خواتین کو رات کے کھانے تک تروتازہ رکھتی ہے، جسے اب تاخیر سے تناول کیا جاتا ہے، جبکہ اس میں چینی کے اضافے نے اسے ایک توانائی سے بھرپور مشروب بنا دیا ہے۔"
چونکہ چائے کو چین سے درآمد کیا جاتا تھا اس لیے یہ برطانوی حکومت پر بھاری بوجھ کا باعث بنتی تھی۔ لزی کولنگھم کے مطابق "فروری 1834 میں گورنر جنرل ولیم بینٹینک نے ایک ٹی کمیٹی تشکیل دی تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ کمپنی کے لیے ہندوستان چائے کی پیداوار کے لیے اچھا مقام ثابت ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ہندوستان میں چائے کی کاشت کی ابتدائی کوششیں ناکامی کا شکار ہوئیں۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آسام چائے کی کاشت کے ایک تجربے کے لیے موزوں مقام ہے اور اگرچہ یورپی شہری دو صدیوں سے چینیوں سے چائے سے خرید رہے تھے، تاہم وہ اس وقت تک اس کی پیداوار کے طریقہ کار سے ناواقف تھے۔"
لہٰذا چینیوں سے مدد طلب کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر "چینیوں نے حسد کے باعث اپنے اس راز کو افشاء نہیں کیا۔"
تمام تر مشکلات کے باوجود آسامی افراد 1838 میں کچھ درجن ٹرنک چائے کی پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جنہیں برطانیہ میں لگ بھگ بے خبری میں ہی نیلام کیا گیا۔ 1870 کی دہائی میں جاکر ہی ہندوستان میں چائے کی صنعت کسی حد تک مستحکم ہوئی اور معقول منافع کے ساتھ بہترین معیار کی چائے کی پیدوار کا آغاز ہوا۔
لزی کولنگھم مزید بتاتی ہیں "برطانیہ اور آسٹریلیا میں ورکنگ کلاسز میں تیز سیاہ انڈین چائے کا شوق تھا جس کی حوصلہ افزائی ان ہول سیلرز نے کی، جو انڈین چائے چینی چائے کے مقابلے میں کم نرخوں پر بیچنا جان گئے تھے۔ یہ تھامس لپٹن تھے جنہوں نے بڑی مقدار میں ہندوستان سے براہ راست چائے کی پتیاں خریدیں"۔
1909 تک چائے برطانوی ذہن کے ساتھ اس حد تک جڑ گئی تھی کہ ایک ہندوستانی کو لپٹن کیفیز کے سامنے ایڈورٹائزمنٹ کے لیے کھڑا کیا گیا تھا۔ اگرچہ برصغیر میں چائے کو برطانوی اور آسٹریلیوں کا مشروب سمجھا جاتا تھا تاہم مقامی افراد خود اس مشروب کو اس زمانے میں بھی نہیں پیتے تھے۔
ہندوستان کے کچھ بڑے شہروں میں اعلیٰ طبقے کے کچھ ہندوستانی افراد اکثر اس مزیدار مشروب کو پیتے تھے جسے چائے کہا جاتا تھا مگر مہاتما گاندھی نے اعتراف کیا کہ کچھ مغربی سوچ کے حامل ہندوستانی ہی ناشتے میں ایک یا دو کپ چائے کا استعمال کرتے تھے۔ ان کے بقول 'خودساختہ تعلیم یافتہ ہندوستان کی جانب سے چائے اور کافی پینا برطانوی حکمرانی کا نتیجہ ہے جو کہ جلد گزر جائے گا۔'
جارج واٹ اکنامک پراڈکٹس آف انڈیا نامی ایک ڈکشنری میں ذکر کرتے ہیں "اگرچہ برصغیر نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران چائے کی پیداوار میں چین کو شکست دے دی ہے تاہم مقامی افراد میں چائے نوشی کا رجحان متعارف کرانے کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی"۔
کیمبرج سے تربیت یافتہ تاریخ دان لزی کولنگھم لکھتی ہیں "بعد ازاں 1901 میں انڈین ٹی ایسوسی ایشن خواب غفلت سے جاگی اور اس حقیقت کا احساس کیا کہ ان کی سب سے بڑی مارکیٹ تو ان کے اپنے دروازے کے ساتھ موجود ہے اور انہوں نے برصغیر میں اپنی مارکیٹنگ مہم کو توسیع دی۔ اگرچہ ہندوستان میں چائے کی مارکیٹنگ مایوس کن پراجیکٹ تھا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی چائے کی مہم میں رفتار آنا شروع ہوئی۔ کارخانوں، کوئلے کے کانوں اور کاٹن ملز وغیرہ میں چائے کے اسٹالز لگائے گئے، جہاں پیاسے مزدوروں نے مارکیٹ فراہم کی۔ 1919 میں صنعتی حوالے سے چائے کی کینٹین ایک ضروری عنصر بن چکی تھی"۔
وہ مزید بتاتی ہیں "ریلوے ایک اور مثال ہے جسے ٹی ایسوسی ایشن نے عالمی سرمایہ داری کی گاڑیوں میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے چھوٹے کنٹریکٹرز کو کیتلیوں، کپ اور چائے کے ڈبے فراہم کرکے انہیں پنجاب اور بنگال میں کام پر لگا دیا۔ یہ صدا "چائے! گرم چائے!" ریلوے استیشنوں کی صدا بن گئی۔ اگرچہ یورپی انسٹرکٹرز چائے فروخت کرنے والوں کو چائے بنانے کی تربیت فراہم کرتے تھے، تاہم مقامی افراد اکثر ان کے مشورے کو نظرانداز کرکے اور اپنے طریقے سے چائے تیار کرتے، جس میں بہت زیادہ دودھ اور چینی کو شامل کیا جاتا۔"
پنجاب میں مکھن ملا دودھ اکثر مصالحہ اور کھیر میں مکس کیا جاتا ہے لہذا مقبول دودھ پتی کی اصطلاح وجود میں آگئی۔
چائے کی مہم کی ایک اور دلچسپ شاخ بڑے قصبوں، شہروں اور برصغیر کی بندرگاہوں میں چھوٹے چائے خانوں یا اسٹالز کی تشکیل کی صورت میں نظر آئی۔ یہ چائے خانے جو گلیوں میں گھوم پھر کر چائے فروخت کرنے والے افراد کے لیے خطرہ بن گئے تھے، نے چائے میں مصالحوں جیسے دارچینی، کالی مرچ، لونگ اور مرچ وغیرہ کے ذریعے مختلف ذائقے فراہم کرنا شروع کیے اور کانپور مل نے تو اپنی خودساختہ مصالحہ چائے دریافت کی، جو آج مشہور و معروف مصالحہ چائے کے نام سے جانی جاتی ہے اور امریکا و یورپ میں بہت پسند کی جاتی ہے۔
لزی کولنگھم اپنی کتاب A Tale of Cooks and Conquerors میں بتاتی ہیں "چائے خانے مخصوص قسم کے صارفین تک ہی رسائی حاصل کرسکتے تھے، اسی لیے برصغیر کے گھروں میں چائے پہنچانے کے لیے مہمات کی سیریز شروع کی گئیں کیونکہ خواتین چائے خانوں میں نہیں جاسکتی تھیں۔ چائے کی تشہیر کرنے والوں کی ایک فوج جنہیں بڑے قصبوں اور شہروں میں مارچ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا، وہ ہر قصبے کا ایک علاقہ چن لیتے اور اگلے چار ماہ تک یہ افراد ہر گھر، ہر گلی میں جاتے۔ اتوار کو نکال کر وہ پورا ہفتہ ایک ہی وقت میں وہاں جاتے۔"
چائے بنانے کی یہ مہم ہندوﺅں اور مسلمانوں دونوں میں چلی، ہر ایک گرمجوشی سے یہ مہم چلانے والے افراد کو اپنے گھروں کے اندر عملی مظاہرے کے لیے مدعو کرتا۔ روزانہ ایک ہی وقت پر چائے بنانے کے اس عمل نے برصغیر میں ٹی ٹائم کو جنم دیا۔
چائے کی مارکیٹنگ کی مہم کے لیے بے تحاشہ سرمائے اور کوششوں کے باوجود ملک کے کچھ کونوں تک رسائی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس حوالے سے پیکنگ فیکٹری اسکیم 1931 میں شروع کی گئی۔ 1936 کے اختتام تک برصغیر کے دیہاتی چائے کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ ایک سال کے اندر تشہیری مہم کی ٹیم آسانی سے 26 ملین کپ دینے میں کامیاب رہی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران شہری اور دیہاتی علاقوں میں چائے کی مہم کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا اور انڈین ٹی ایسوسی ایشن نے اپنے اقدامات کا مرکز ہندوستانی فوج کو بنالیا۔ ہندوستانی سپاہی چائے سے بخوبی واقف ہوچکے تھے اور جنگ کے بعد ہندوستان میں چائے پینے کی عادت برصغیر بھر میں عام ہوچکی تھی۔ 1945 کلکتہ اور لاہور کی گلیوں میں رہنے والے بے گھر افراد چائے نوشی کے عادی تھے۔ اس طرح چائے برصغیر کی روزمرہ کی زندگی کے معمولات کا حصہ بن سکی۔
اب چائے کا وقت برصغیر میں مقدس ترین رواج بن چکا ہے، اس بلاگ کو تحریر کرنے کی تیاری کے دوران میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے اچھے دوستوں کے لیے بہترین ٹی پارٹی کی میزبانی کروں۔ یقیناً ایک ٹی پارٹی کے مینیو میں ہر طرح کی کھانے کی اشیاء کو شامل کیا جاسکتا ہے جو کہ آسمان پر ستاروں کی طرح لاتعداد ہوسکتی ہیں۔ تو اس موقع سے تخلیقی سوچ کے ساتھ لطف اندوز ہوں۔
میرا اپنا مینیو گرم پونڈ کیک اور گرم براﺅنیز پر مشتمل ہوتا ہے جن کے ساتھ آئسکریم، قیمے کے پیٹیز، روسٹ بیف سینڈوچز، چکن سلاد، پاستا جو سورج کی روشنی میں خشک ٹماٹروں، چکن پر مشتمل ہو، چنے وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔
تاہم ٹرالی کی ملکہ یقیناً سیاہ چائے ہوتی ہے جس سے دارچینی کی مہک آرہی ہو جبکہ ایک طرف دودھ اور چینی موجود ہو۔
مزید پکوان کہانیوں کے لیے کلک کریں۔
لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔
انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس food_stories@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔