یکساں نظام صلوٰۃ ابتداء میں ہی ناکام؟
اسلام آباد: ملک بھر میں تمام مسلم مسالک کی مساجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ایک ہی وقت میں ادائیگی کا حکومتی مشن اپنی ابتداء میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حالانکہ امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی نے اس اقدام کی توثیق کردی تھی، تاہم اسلام آباد میں مساجد کے امام خود اپنے مقرر کردہ نمازوں کے اوقات پر عمل کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ یکساں نظامِ صلوٰۃ وفاقی دارالحکومت میں بیس دن پہلے متعارف کرایا گیا تھا۔
یہاں تک کہ سرکاری دفاتر میں قائم مساجد میں بھی اس پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔
تاہم زبانی طور پر مساجد کے پیش اماموں کی جانب سے اس نظامِ صلوٰۃ کی مخالفت یا مزاحمت نہیں کی گئی۔
وزارتِ مذہبی امور کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے 26 مئی کو مینجمنٹ بورڈ اور اسلام آباد کی تمام مساجد کے پیش اماموں کا ایک کنونشن طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں اس نظام کی اہمیت کو اُجاگر کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ یہ کنونشن وفاقی وزیر برائے اطلاعات پرویز رشید کے تلخ تبصرے سے پیدا ہوئی کشیدگی سے متاثر نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ مدرسوں کی تعلیم کے معیار کے بارے میں وفاقی وزیر کی رائے نے بعض مذہبی گروپس کو ناراض کردیا تھا۔
سینیٹر پرویز رشید کے نکتہ نظر کے حوالے سے شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہلِ حدیث اور جماعت اسلامی کے مدرسہ تعلیمی بورڈ نے وزارتِ مذہبی امور کے ساتھ ملاقاتوں کے بائیکاٹ کا پہلے ہی اعلان کردیا ہے۔
وفاقی وزارت برائے مذہبی امور نے اسلامی اتحاد اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے موسم گرماو سرما کے دوران اذان و جماعت کا نظام الاوقات تیار کیا تھا، جس پر محکمہ موسمیات اور تین اہم مسالک، اہلِ حدیث، حنفی اور اہل تشیع کے ساتھ مشاورت کی گئی تھی۔
سیکٹر جی-8 کے رہائشی مصطفٰے قادر کہتے ہیں ’’فجر کی اذان میں عام طور پر 45 منٹ لگ جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا ’’صرف جی-8 مرکز کے اردگرد ہی 8 مساجد ہیں اور ہر ایک کی اذان دوسری مسجد کی اذان ختم ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔‘‘
اسلام آباد میں تمام مسالک کی مساجد کے لیے سرکاری طور پر جمعہ کی اذان کا وقت دوپہر 12 بجکر 45 منٹ اور جماعت کا وقت دوپہر ایک بجکر 30 منٹ مقرر کیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ کی کارروائیوں کی رپورٹس تیار کرنے والے ایک صحافی کہتے ہیں ’’پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد میں نمازِ جمعہ 12 بجکر 30 منٹ پر ادا کی جاتی ہے۔ جب مصروفیت کی وجہ سے میں پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد مقررہ وقت پر نہیں پہنچ پاتا، تو میں سپریم کورٹ کی مسجد چلا جاتا ہوں، جہاں نمازِ جمعہ کا وقت دوپہر ایک بجے ہے۔‘‘
اس نظام کو حتمی صورت دینے والی کمیٹی کے ایک اہم رکن علامہ عبدالعزیز حنیف نے بتایا کہ ایسے لوگ جو نمازوں کے لیے مقررہ سرکاری نظام الاوقات پر عمل نہیں کررہے ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا ارادہ ہے۔
ابتداء میں حکومت کا ارادہ تھا کہ نماز کے یکساں نظام الاوقات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد کے مجسٹریٹ کو اختیار دینا چاہیے، تاہم بعد میں یہ خیال رد کردیا گیا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ پر پہلے ہی بوجھ زیادہ ہے اور یہ اس کی استعداد سے باہر ہوجائے گا۔
انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ مجسٹریٹ جلد ہی رمضان کے دوران مقررہ قیمتوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں مصروف ہوجائیں گے۔‘‘
ابھی اس نظامِ صلوٰۃ کو کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے، تاہم اسلام آباد میں زیادہ تر مساجد اور پیش اماموں نے اس کو بڑے پیمانے پر قبول کرلیا ہے۔
ایک پیش امام نے کہا ’’ہم حکومتی پہل کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر کسی فرد کی ایک مسجد میں نماز چھوٹ جائے تو اس کے پاس دوسری جماعت میں شامل ہونے کا آپشن ہونا چاہیے۔‘‘
مذہبی امور کی وزارت کے حکام پُرامید ہیں کہ نمازوں کا یکساں نظام اپنا لیا جائےگا۔
ایک عہدے دار نے کہا ’’تمام نئے تصورات اور نظریات پر عملدرآمد میں وقت لگتا ہے، ہم مساجد میں اذان اور نماز کے اوقات کے کیلنڈر تقسیم کررہے ہیں، اور بہتری کی امید رکھتے ہیں۔‘‘