'میں بھی الیکشن لڑوں گا'
بلدیاتی انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والے ادارے دنیا کی کئی جمہوریتوں میں ترقی کے ضامن رہے ہیں۔ امریکا ہو یا برطانیہ، ان کی جمہوریتوں میں مقامی سطح پر ترقیاتی کام یہی بلدیاتی ادارے کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ صرف ملکی سطح کے پالیسی معاملات اور قانون سازی کے کام انجام دیتی ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جمہوری حکومتیں ہمیشہ ہی بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہی ہیں۔ گذشتہ جمہوری حکومت نے جان بوجھ کر بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ اس کی وجہ شاید ان جماعتوں سے منسلک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں کا خوف ہے، کہ کہیں اس عمل سے ان کے اختیارات خصوصاً "مالی اختیارات" چھین نہ لیے جائیں۔
اس کے برعکس اکثر بلدیاتی انتخابات فوجی حکومتوں نے ہی منعقد کروائے ہیں۔ ان آمروں نے یہ انتخابات اپنے لیے عوامی سطح پر سیاسی طاقت کے حصول کے لیے کروائے، چنانچہ ہر فوجی آمر نے اپنی سہولت اور مفاد کے لیے نت نئے بلدیاتی نمونوں کو متعارف کروایا۔ وجہ چاہیے کچھ بھی ہو، جمہوری و غیر جمہوری حکومتوں نے بار بار بلدیاتی انتخابات کی ہیئت و ترکیب بدلی ہے جس سے عوام مزید مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
گذشتہ فوجی حکومت اور اٹھارہویں ترمیم کے نفاذ کے بعد عدالتِ عظمیٰ کے اصرار پر اب پورے ملک میں بتدریج بلدیاتی انتخابات کروائے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں پہلے ہوچکے ہیں، اور اب خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات مئی کی 30 تاریخ کو ہو رہے ہیں۔
پڑھیے: لوئر دیر ضمنی انتخاب کے نتائج کالعدم قرار دینے کی اپیل
کسی بھی جمہوریت کی بقا اور پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں نچلی سطح تک اقتدار و طاقت منتقل کی جائے۔ اور اگر یہ عمل کسی لسانی، نسلی، اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ اگر اس کے برعکس ہو تو اس کے کئی خطرناک مضمرات ہوسکتے ہیں۔
جب سے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوا ہے، پورے صوبے میں لوگوں اور سیاسی جماعتوں میں بے پناہ سرگرمی دیکھی جا رہی ہے۔ ایک طرف یہ سرگرمی اچھی ہے، تو دوسری طرف اس کے کئی ایک منفی نتائج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت نے ان آنے والے انتخابات کو اس قدر مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کہ عوام سر پیٹنے کو آ گئے ہیں۔ ایک بات جو قابلِ ستائش ہے، وہ ان انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت ہے، مگر اس میں بھی کئی منفی رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات اور اداروں کا تصوراتی مقصد "نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی" ہے۔ مگر اس عمل کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد بڑے بڑے مگرمچھوں کو کسی نہ کسی نہج پر سیاسی طور پر نوازنا ہے۔ یہاں آکر سارے نظریات اور اصول ہوا ہو جاتے ہیں اور جوڑ توڑ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ بندہ سر پکڑ کر رہ جاتا ہے۔ مثلًا عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد بھی ممکن ہوجاتا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے صرف ضلعی اور تحصیل کونسلز کے لیے بلدیاتی الیکشن کو جماعتی بنیادوں پر کروانے کی حکمت عملی اپنائی ہے جبکہ ولیج یا ہمسایہ کونسل کے انتخابات کو غیر جماعتی رکھا ہے۔
اس سے برادریت اور نسلیت کو بہت تقویت پہنچی ہے، اور ذات برادری پر کئی قبیلے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ کاغذات جمع کروانے سے پہلے مقامی لوگوں نے کئی کئی جرگے اور اجلاس کیے، اور بد قسمتی سے ایسے سارے صلح مشورے یا اجلاس کسی دوسرے قبیلے کی مخالفت میں کیے گئے۔
کسی نے بھی یہ نہیں دیکھا کہ آخر وہ کسی شخص کو کسی بھی نشست کے لیے کس بنا پر نامزد کر رہے ہیں۔ صرف یہ مقصد رہا کہ کیونکہ فلاں قبیلے نے 'اپنا' بندہ کھڑا کیا ہے، اس لیے ہم بھی اپنے بندے کو کھڑا کردیتے ہیں۔ اگر نامزدگی کا معیار صرف یہ رہا تو ایسے الیکشن کے نتیجے میں بننے والے اداروں سے کسی 'تبدیلی' کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے۔
مزید پڑھیے: کینیڈین انتخابات اور پاکستانی عزت کا جنازہ
ایک یونین کونسل (وارڈ) کو دو یا اس سے زیادہ ولیج/ہمسایہ کونسلز میں تقسیم کر کے کونسلروں کی ایک فوج تیار کی جاتی ہے، جس کا واحد مقصد صوبے میں حکمران جماعت کے لیے کارکن ڈھونڈنا ہوتا ہے تاکہ جنرل الیکشن کی تیاری کی جاسکے۔ ہر ایک یونین کونسل میں اس الیکشن کے بعد کم از کم بیس بائیس کونسلرز ہوں گے۔ اس سے نہ صرف یہ انتخابات پیچیدہ بن گئے ہیں، بلکہ بے مقصد بھی ہوگئے ہیں۔
حکومت ایک طرف تو صوبائی اسمبلی کے ممبران کو ناراض نہیں کرنا چاہتی، تو دوسری طرف بلدیاتی اداروں کو مبینہ طور پر ترقیاتی فنڈز میں سے 30 فیصد دے کر عوام کو آپس میں مزید الجھا رہی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ بلدیاتی اداروں کے ان منتخب اہلکاروں کو کوئی مشاہرہ نہ دینے کی وجہ سے بدعنوانی بھی مزید بڑھ کر نچلی سطح تک منتقل ہو گی۔
عجیب منطق ہے کہ یہ حکومت اپنے دور میں مختص سالانہ ترقیاتی بجٹ کو خرچ کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے، جبکہ دوسری جانب بلدیاتی اداروں کے لیے صرف 30 فیصد فنڈز مختص کر رہی ہے۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر مکینزم نہ بنا کر یہ حکومت صوبے کو ترقیاتی دوڑ میں پیچھے دھکیل رہی ہے۔
صوبائی الیکشن کمیشن کے اہلکاروں نے صرف اپنی معلومات کو سامنے رکھ کر نشانات کا انتخاب کیا ہے۔ امیدواروں کو ایسے ایسے نشانات دیے ہیں، کہ کئی ایک امیدوار ان ہی نشانات کی وجہ سے الیکشن سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ کسی دیہات میں کوئی ناخواندہ خاتون کمپیوٹر کے کی بورڈ، موٹر سائیکل کے پلگ، یا پھر وزن کرنے کی مشین کو کیا خاک پہچانے؟
خواتین تو خواتین، ایسے نشانات کو تو یہاں کے مرد بھی نہیں پہچان سکتے۔ اسی طرح کسی شہر میں بسنے والا دیہات میں استعمال ہونے والی چیزوں کو کیا پہچانے گا۔ یہی حالت گراموفون کی ہے جسے عام لوگ باجا ہی سمجھتے ہیں، اور اس نشان والے امیدوار پر فقرے کستے ہیں۔ ایک نشان ہینگر بھی ہے، اسی طرح ہیٹ بھی نشان ہے۔ پنکھوں کی دو قسم ہمارے الیکشن کمیشن کے ان نشانات میں شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اہلکار یا تو ہماری ثقافت سے پوری طرح ناواقف ہیں یا پھر انہوں نے ہمارے ساتھ جان بوجھ کر مذاق کیا ہے۔
پڑھیے: دلچسپ انتخابی نشان
سوات میں اس بار ان بلدیاتی انتخابات میں عوامی سطح پر بہت سرگرمی دیکھی جاسکتی ہے، لیکن یہ سرگرمیاں کسی مثبت تبدیلی کے اشارے نہیں لگتیں۔ زیادہ تر ذات برادری اور سیاسی چپقلشیں ہی ان سرگرمیوں کی وجوہ نظر آتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں سیاسی اقتدار کا حصول ہی ساری سیاست کا محور و مقصد رہتا ہے۔ اس دوڑ میں سماجی و ترقیاتی خدمات اور حقوق کا حصول کسی کا مقصد نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سوات میں بھی قریہ قریہ، گاؤں گاؤں اور گلی گلی ’جرگے‘ یعنی کارنر میٹنگز ہوئی ہیں، اور ہو رہی ہیں، جن میں عوامی دلچسپی دیدنی ہوتی ہے۔
ایسے میں سماجی و ترقیاتی خدمات اور حقوق کے حصول کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں کا یہ گلہ جائز لگتا ہے کہ ایسا کوئی جرگہ یا ’یرک‘ کبھی اسکول اور تعلیم کے حصول، سڑک کی خرابی، گلی کوچوں کی صفائی، راستوں کی پختگی، ماحولیات کی آلودگی یا کسی شخص پر ریاستی و غیر ریاستی جبر کے خلاف نہیں ہوا۔
امیدواروں اور عوام کی اس ’ہجومیاتی‘ اور سر توڑ سرگرمیوں کے بیچ عوام کی اصل توقعات کا پتہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مثلًا کسی امیدوار سے پوچھیں کہ وہ کیوں یہ الیکشن لڑ رہا ہے، تو جواب میں یا تو وہی رٹے رٹائے قومی و بین الاقوامی سیاسی نعرے، یا پھر ایک لمبی خاموشی۔
مقامی حکومتوں کے اس عمل میں شاید ہی کوئی ہو جسے مقامی مسائل کا ادراک ہو، اور ان کے حل کے لیے کوئی حکمت عملی موجود ہو۔ اسی طرح کسی ووٹر سے پوچھیں کہ وہ ووٹ کیوں ڈالنے جا رہا ہے، تو وہ بے چارہ بھی گم صم۔ کیونکہ پورا ہجوم جُتا ہوا ہے، اس لیے ایک عام ووٹر بھی اس دوڑ میں سرگرداں ہے۔
ایسے میں سول سوسائٹی پر مزید ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں کہ وہ ان انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے نمائندوں اور اداروں کو جوابدہ بنائے۔
اب دیکھنا ہے کہ ان انتخابات کی پٹاری سے کرپشن کا کوئی خوفناک اژدھا نکلتا ہے یا کسی مثبت تبدیلی کا سامان۔ انتظار کیجیے۔ اس سال کے آخر تک یہ پٹاری کھلے گی اور ساتھ ساتھ ہماری آنکھیں بھی!
زبیر توروالی انسانی حقوق کے کارکن اور ریسرچر ہیں۔ وہ ادارہ برائے تعلیم و ترقی سوات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ztorwali@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔