پاکستان

گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس بل منظور

قومی اسمبلی میں اپوزیشن نےبل پیش کرنےپرحکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاق صوبوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے جارہاہے
|

اسلام آباد: وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی مخالفت کے باوجود گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل قومی اسمبلی سے منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

بل پر تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ارکان نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے۔

قومی اسمبلی میں گیس ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس بل پر ووٹنگ ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بل کی مخالفت کی گئی۔ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ارکان اسمبلی نے گیس سیس بل نامنظور کے نعرے لگائے۔

تاہم قومی اسمبلی نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل کثرت رائے سے منظور کرلیا اور بل کے حوالے سے حکومت نے پیپلز پارٹی کی ترامیم بھی منظور کرلیں۔

قومی اسمبلی میں بل پر ہونے والی بحث کے ابتداء میں پی پی کے اراکین نے بل پیش کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تاہم بل کی منظوری کے لئے کی جانے والی ووٹینگ میں حکمران جماعت کی مکمل حمایت بھی کردی۔

قومی اسمبلی گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل منظور کروانے کے بعد حکمران جماعت ن لیگ آج بروز بدھ اس بل پر قانون سازی کے لئے سینیٹ میں پیش کرے گی۔

بل کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت ٹیکس کی مد میں ایک سو ارب روپے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جبکہ رواں مالی سال میں حکومت نے اس ٹیکس کی مد میں 145 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کررکھا ہے۔

اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل پیش کیا۔

بل پیش ہونے پر سب سے پہلے پی پی کی رکن قومی اسمبلی نفیس شاہ نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 2011ء میں پیپلز پارٹی کی اس وقت کی حکومت نے اس بل کو متعارف کروایا تھا جس کا مقصد پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل تھا۔

انھوں نے سوال کیا کہ موجودہ حکومت جب اس پروجیکٹ کو ملتوی کرچکی ہے تو اس بل کو پیش کرنے کی ضرورت کیا ہے؟

اس موقع پر پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عارف علوی نے حکومت کی جانب سے بل کو پیش کرنے پر اسے ’جمہوری عمل کا مزاق‘ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ مذکورہ بل کو پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی مشاورت کے بعد پیش کیا جائے گا تاہم ایسا انہیں کیا گیا ہے۔

عارف علوی نے کہا کہ اس قسم کے متنازعہ ٹیکس بلوں پر بحث کرنے کے لئے مشترکہ مفاد کی کونسل ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔

ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ مذکورہ بل آئین کے آرٹیکل 77 اور 153 کی خلاف ورزی ہے اور ایسے بل پیش کرنے سے وفاقی حکومت صوبوں کے معاملات میں براہ راست مداخلت کررہی ہے۔

جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق نے بل کو عالمی بینک کا ایجنڈا قرار دیا۔

گیس ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس بل

وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ گیس ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس کے تحت 3 سال تک پیسے وصول کیے جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ گیس سیس سے سالانہ 100 ارب روپے حاصل ہوں گے اور گیس سیس بل کے تحت صرف انہی صارفین سے سرچارج لیا جائے گا جو ایل این جی استعمال کریں گے۔

بل میں صنعتی، فرٹیلائزر، سی این جی اور پاور جنریشن سیکٹرز پر 1150 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک محصول عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ گھریلو، تجارتی شعبے اور سیمینٹ سیکٹر پر اس کا نفاذ نہیں ہوگا۔

حکومت نے بل میں فرٹیلائزراورسی این جی سیکٹر سے 3 سو روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، صنعتی شعبہ سے 150، آئی پی پیز سے 100 روپے، واپڈا اور کے الیکٹرک سے 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سیس لینے کی تجویز دی ہے۔