رویوں کی تبدیلی چاہیے، ناموں کی نہیں
خالہ نسرین اور ماما قیوم برسوں سے ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ خالہ نسرین ہر شبِ جمعہ نیاز کیا کرتیں، جبکہ ماما قیوم ہر دو دن بعد انہیں معائنے کے لیے کسی نہ کسی ڈاکٹر کے پاس لے جایا کرتے تھے تا کہ کوئی حل نکل آئے۔
انہوں نے سارے ٹوٹکے، دعائیں، اور تعویذ گنڈے آزما کر دیکھ لیے تھے۔ یہاں تک کہ کوئٹہ کا کوئی بھی ایسا پیر و مرشد یا آستانہ باقی نہیں بچا تھا جہاں ماما قیوم اور خالہ نسرین نے حاضری نہ دی ہو۔
بالآخر ایک پیر کے پاس جانے کے بعد قدرت ان پر مہربان ہوئی اور امید کی کرن نظر آنے لگی۔ تیرہ برس بعد خالہ نسرین اور ماما قیوم کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو ان کے ساتھ ساتھ پورے محلے میں عجیب خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ مٹھائی تقسیم کرتے، خدا کا شکر ادا کرتے، اور پیر صاحب کو دعائیں دیتے۔
بزرگوں سے صلاح مشورے کے بعد بچے کا نام حشمت اللہ رکھا گیا۔ حشمت اللہ بڑا ہو کر اسکول جانے لگا تو روز اس کی شکایتیں بھی آنے لگیں۔ وہ بلا وجہ ہر ایک سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا، اور ہر دن کسی نہ کسی بچے سے ضرور اس کی لڑائی ہوتی تھی۔ اس طرح وہ سارے محلے میں لڑاکو کے نام سے پہچانا جانے لگا، اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اب وہ بات بات پر لوگوں کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا۔
خالہ نسرین حشمت اللہ کو سمجھا بجھا کر تھک گئیں، جبکہ ماما قیوم اسکول جا جا کر بیزار سے ہوگئے۔ بالآخر کافی سوچ و بچار کے بعد دونوں ایک بار پھر پیر صاحب کے ہاں مدد مانگنے پہنچ گئے۔ پیر صاحب نے ساری روداد سن کر کہا کہ نام بدل دو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ چنانچہ حشمت اللہ کا نام بدل کر دانیال رکھ دیا گیا۔ نام کی تبدیلی سے حشمت اللہ، جو اب دانیال بن چکا تھا، کے رویے میں ایک ٹھراؤ سا آگیا۔
میں جب بھی حشمت اللہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو وطن عزیز پاکستان کی یاد آتی ہے۔ وجہ بعد میں بتاتا ہوں۔
پچھلی صدی کی شروعات سے ہی کبھی مذہب کے نام پر، تو کبھی قومیت کے نام پر کئی جنگیں لڑیں گئیں۔ ان جنگوں میں جس طرح انسانیت کی عظمت کو پامال کیا گیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی دوران کچھ نئے جغرافیے قائم ہوئے۔ کچھ آزاد ہو گئے تو کچھ غلام۔ کچھ لوگوں کو ان کی آبائی جگہوں سے بے دخل کردیا گیا، تو کچھ لوگوں کو ان کا کھویا ہوا رقبہ واپس مل گیا۔
روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور بہت ساری نئی ریاستیں قائم ہوئیں۔ ایران نے امریکہ کے چنگل سے اپنی کھوئی ہوئی آزادی چھین لی۔ یہاں بر صغیر میں اول تو ہندوستان کے باشندوں نے برطانیہ سے آزادی کا مطالبہ کیا، اور پھر فوراً ہی ہندوستان کے مسلمان اپنے حقوق کے لیے ایک آزاد ریاست کے بارے میں سوچنے لگے، جہاں انہیں ان کے حقوق میسر آسکیں، جہاں وہ بلا خوف عبادت کر سکیں، جہاں ان کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو۔
بہت سی جانوں کا نذرانہ دینے اور طویل خونریزی کے بعد بالآخر مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک الگ ملک نصیب ہوا۔ ہندوستان سے جو مسلمان بڑی جدوجہد کے بعد پاکستان پہنچے، انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ پاکستان سے بھی بہت سارے ہندو ہندوستان ہجرت کر گئے جہاں پہنچ کر انہوں نے وہاں کی خاک کو چومنا شروع کر دیا۔
مگر صد افسوس کہ دونوں ملکوں کے باشندوں کو کچھ ہی عرصے میں بڑی مایوسی ہوئی، اور انہوں نے اپنے 'نئے' ہم وطنوں سے سوال کرنا شروع کیا کہ کیا یہی وہ ملک ہے جس کے لیے ہم اپنی زندگی داؤ پر لگا کر یہاں پہنچے؟ یہاں بھی تووہی حال ہے: وہی بھوک، وہی گندگی، وہی طبقاتی نظام، وہی چوری چکاری، وہی دروغ گوئی، وہی فتوے اور وہی قتل و غارت۔
جواب میں دونوں ملکوں کے بزرگوں نے کہا کہ یہ تو بس شروعات ہے۔ وقت لگے گا لیکن آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس آہستہ آہستہ کے انتظار میں 68 سال گزر گئے، مگر کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی پاکستان کے ہر باشندے کا یہی سوال ہے۔ کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کے لیے ہم نے اتنی قربانیاں دیں؟
اور یہیں سے شروع ہوتی ہے اصل بات۔ کیا غلطی ہوئی ہم سے؟ کیا قائد اعظم نے اپنا فرض پوری طرح نہیں نبھایا یا ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی؟ کیا ہمیں کسی کی نظر لگ گئی ہے، یا دشمن نے ہم پر جادو ٹونا کر دیا ہے؟ کیا ہم اپنے اعمال کی سزا پا رہے ہیں یا کیا ہم اس وطن عزیز کے صحیح حقدار نہیں؟ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ ہم نے تو بڑی جدوجہد کے بعد یہ ملک حاصل کیا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سب کے ذہنوں سے بری طرح چپک کر رہ گئے ہیں۔ اور پھر مختلف عالم فاضل لوگ جو ملک کے الگ الگ حصوں میں مقیم تھے، انہوں نے جوابات دینے شروع کر دیے۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی اس ملک کے حق میں نہیں تھے، اس لیے ہمیں آزاد کیا جائے۔ دوسری طرف سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، ہمیں آزادی چاہیے۔ کچھ نے کہا کہ بھائی یہ ملک بنایا ہی ہم لوگوں نے تھا، اس پر صرف ہمارا ہی حق ہے۔ اور اس طرح کچھ لوگوں نے جگر کی طرح اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو سارے مسائل کا حل قرار دے دیا۔
مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اسی فلسفے کے تحت ہم نے پہلے برطانیہ پھر ہندوستان سے آزادی حاصل کی۔ کیا ہمارے مسائل آزادی حاصل کرنے سے حل ہوگئے؟ کیا آزادی کے بعد ساری سڑکیں پکی ہوجائیں گی، سارے بند اسکول کھل جائیں گے، سارے ہسپتالوں میں مفت علاج ملنا شروع ہوجائے گا؟
مثال کے طور پر ہم کچھ دیر کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ اگر بلوچستان آزاد ہو بھی جاتا ہے، تو کیا پھر 'آزاد بلوچستان' میں ذکری برادری کو ان کے عقائد کے مطابق عبادت کی اجازت ہوگی؟ کیا ہزارہ برادری کی نسل کشی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ کیا پشتون بھائیوں کے کاروباری مراکز کو تحفظ ملے گا؟
کیا بلوچ اور براہوی ایک دوسرے سے لڑنا بند کر دیں گے؟ کیا سرداری نظام کے ظلم کو روکا جائے گا؟ کیا بلوچوں کے مختلف قبیلے ایک دوسرے کے ساتھ برسوں کی دشمنی ختم کر دیں گے؟ کیا غریب عوام کو صاف پانی، کھانا، پوشاک اور دیگر حقوق مہیا ہوں گے؟ کیا سرداری نظام تلے جو ظلم ہو رہا ہے وہ نظام ختم کر دیا جائے گا؟ کیا ہر فرد کو پولیو سے محفوظ رکھا جاسکے گا؟
کیا مذہبی جنونیت پر قابو پا لیا جائے گا؟ کیا قوم پرستی کی وجہ سے جو نفرتیں جنم لے چکی ہیں، وہ ختم ہوں گی؟ کیا عورت کو انسان سمجھا جائے گا؟ کیا ہر بچّے کو تعلیم فراہم کی جائے گی؟ کیا کم عمر لڑکیوں کی شادی پر پابندی لگا دی جائے گی؟ کیا زبان کی بالا دستی پر بے جا بحث اور لڑائی جھگڑا ختم ہوگا؟
کیا کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں بسنے والے لوگوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے؟ کیا مزدور کو سرمایہ داروں سے چھٹکارہ مل سکے گا؟ کیا منشیات کی غیر قانونی خرید و فروخت پر قابو پا لیا جائے گا؟ کیا لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار محبت اور برداشت کا جذبہ وجود میں آئے گا؟ کیا ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؟
جب میں اس سوال کا جواب دینے لگتا ہوں، تو میرا دل درد سے پھٹا جاتا ہے کیونکہ جواب ہے "نہیں، نہیں، نہیں"۔ بلوچستان کے نام کو بدلنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ آزادی ملنے سے کچھ نہیں بدلنے والا۔ کیوں؟ کیونکہ بدلاؤ نام کے بدلنے کا نام نہیں، بلکہ انسان کی سوچ اور رویوں کے بدلنے کا نام ہے۔
ہم ہندوستان میں بھی اسی طرح تھے، اور پاکستان میں بھی ویسے ہی ہیں۔ وہی دروغ گوئی، وہی آرام پسندی، وہی جگاڑو طبیعت، وہی تنفر، وہی جذباتیت، وہی خود نمائی، وہی مردہ پرستی، وہی اذیت آزاری، اور وہی فتوے اور قتل و غارت گری۔ کچھ نہیں بدلا۔ بس نام بدل گیا۔
مجھے اب بھی یاد ہے جب ایک عزیز خاتون، جو ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہیں، نے ایک دن مجھ سے کہا، "ہم کچھ رشتہ داروں سے ملنے ہندوستان گئے۔ وہاں ایک دکاندار سے ملاقات ہوئی اور جب ان کو پتہ چلا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو انہوں نے کہا "آپ ہندوستان کیوں نہیں آتے؟ پاکستان میں ہندوؤں کے ساتھ بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ آپ ہندو ہیں اور ہندوستان آپ کے لیے اچھا اور محفوظ ملک ہے۔" ساتھ ہی دکاندار یہ بھی کہتا رہا کہ "مسلمان کبھی نہیں سدھریں گے، ان کے لیے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں۔ پھر سامنے والے مرغ فروش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "وہ دیکھو وہ مسلمان ہے، میں روز اسے کہتا ہوں یہ تمہارا ملک نہیں، نکل جاؤ اور ہمیں چین سے جینے دو۔"
انہوں نے اس دکاندار سے کہا کہ "پھر کیا فرق ہوا آپ میں اور ان پاکستانیوں میں جن کا آپ اتنا شکوہ کر رہے ہیں؟ پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے اور ہندوستان میں بھی یہی ہو رہا ہے، یہی مردم بے زاری، یہی طعنہ زنی، یہی نفرت، یہی ذہنیت۔"
جو لوگ پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، میرا ماننا ہے کہ انہیں اصل مسائل پر غور کرنا چاہیے۔ آزاد بلوچستان سے کچھ نہیں ہونے والا۔ بھلے بلوچستان کا نام بدل کر "محبتستان، عشقستان، امنستان" رکھ لیں۔ کچھ نہیں بدلنے والا۔ کیونکہ یہی لوگ ہیں۔ یہی بیماریاں، یہی فطرتیں، یہی عادات، یہی ذہنیت اور انہی رویوں میں ڈوبے لوگ۔
جب تک ہم اپنی سوچ اور رویوں پر کام نہیں کریں گے، کچھ نہیں بدلنے والا۔ ہمیں اصل آزادی اپنے ذہن کی غلامی سے حاصل کرنی چاہیے۔ ہمیں اصل آزادی اپنے نفس کی غلامی سے حاصل کرنی چاہیے۔ ہمیں اصل آزادی اپنی خود پسندی سے حاصل کرنی چاہیے۔ ورنہ فارسی میں محاورہ ہے "وہی آش وہی کاسہ۔"
تو ہوا یوں کہ جب حشمت اللہ کا نام تبدیل کر کے دانیال رکھ دیا گیا تو وہ بہت امن پسند ہو گیا اور اس نے لڑائی جھگڑا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ جوان ہو گیا اور اس کی شادی محلے کی خوب صورت اور خوب سیرت لڑکی سے طے پا گئی۔ حشمت الله کی شادی کے دن سب لوگ خوشی منا رہے تھے اور خالہ نسرین اور ماما قیوم کی خوشی تو دیکھنے کے قابل تھی۔ مگر پھر اچانک خبر آئی کہ دانیال یعنی حشمت الله نے خودکشی کر لی ہے۔
علی زیدی تھرڈ ڈویژنر ہیں اور بد قسمتی سے اکاؤنٹنگ کے طالبعلم ہیں۔ افسانہ، غزل اور نظم بھی لکھتے رہتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: smazify@
ان کا ای میل ایڈریس smazify@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔