"ملزم ایک مشہور شخصیت ہے"
میں سلمان خان کے لاکھوں چاہنے والوں میں سے ہوں، اور بولی وڈ کی سب سے پہلی فلم جو مجھے یاد ہے، وہ سلمان خان کی فلم 'انداز اپنا اپنا' ہے۔
بچپن سے ہی مجھے وہ بہت پسند ہیں۔ پھر ایک وقت آیا جب ہم وینکوور سے سان فرانسسکو براستہ سڑک گئے۔ اتنے طویل سفر کے لیے ہماری گاڑی میں صرف ایک میوزک کیسٹ تھی، اور وہ ہم 'آپ کے ہیں کون' کی تھی۔ وہ دو دن تک ہماری گاڑی میں چلتی رہی، لیکن سب ہی اس کا لطف لیتے رہے۔
سچ کہیں تو میں سلمان خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں دیکھنا چاہتی۔ لیکن سالوں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے سیکھا ہے کہ کس طرح جذبات کو ایک طرف رکھ کر سوچنا چاہیے، تاکہ نظامِ انصاف کے ذریعے معاشرے میں سمجھداری کو فروغ ملے۔
سلمان خان کے مقدمے میں جج شری دیش پانڈے کے تحریر کیے گئے فیصلے کی پہلی سطر ہے: "ملزم مشہور شخصیت ہے۔"
معذرت کے ساتھ، مجھے کسی قانونی فیصلے کا یہ تعارف بہت ہی بے ہودہ معلوم ہوتا ہے۔
سلمان خان ہندوستان کے شہری ہیں، اور اس کی وجہ سے وہ ہندوستانی قانون کے تابع ہیں، جس کے تحت ان کے جرم کی سزا زیادہ سے زیادہ 10 سال ہے، جبکہ انہیں صرف 5 سال کی سزا دی گئی ہے۔
سلمان خان کے معاملے میں عدالتوں نے نرمی دکھائی ہے، اور یہ نرمی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ دولتمند، مشہور، طاقتور، اور اونچے طبقے کے لوگوں کا مانا ہوا حق ہے، جو کسی قانون میں لکھا ہوا بھی نہیں۔
مشہور شخصیات سے جنون کی حد تک محبت کے اس دور میں ججز کے سامنے جب بھی غیر ذمہ دار سلیبریٹیز کا معاملہ آئے، تو وہ نرمی سے کام لیتے ہیں، جس میں انہیں عوام کی ناپسندیدگی کے لیے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہ چیز سب سے زیادہ ہولی وڈ میں دکھائی دیتی ہے۔
1986 میں مارک والبرگ کو اقدامِ قتل، اور حملہ کر کے ایک شخص کو ایک آنکھ سے اندھا کر دینے کے الزام میں 2 سال قید کی سزا سنائی گئی، لیکن وہ صرف 45 دن سلاخوں کے پیچھے گزار کر گھر چل دیے۔
1997 میں کرسچن سلیٹر کو نشے کی حالت میں اپنی گرل فرینڈ پر شدید تشدد کا الزام ثابت ہونے پر 3 ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی، جبکہ انہوں نے صرف 59 دنوں کی سزا کاٹی۔
2012 میں امینڈا بائنز کو شراب پی کر گاڑی چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ بھلے ہی وہ خود کو یا کسی اور کو نقصان پہنچانے سے پہلے گرفتار کر لی گئیں، لیکن انہیں صرف ایک رات جیل میں رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔
مشہور گلوکار سنوپ ڈاگ پر مخالف گینگ کے ممبر کے قتل کا الزام تھا، لیکن مشہور وکیل جونی کوشران نے ان کا کیس اس بہترین انداز سے لڑا، کہ وہ تمام الزامات سے بری ہو کر ایک شاندار کریئر بنانے میں کامیاب رہے۔
سلمان خان کے بارے میں فیصلہ آنے کے بعد ٹوئٹر اور دنیا بھر کے اخبارات کو سرسری طور پر دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہرت اپنے ساتھ ایک چیز بڑی تعداد میں لاتی ہے، اور وہ ہے مر مٹنے والے پرستار۔
مزید پڑھیے: سلمان خان کو مہلت مل گئی، سزا معطل
صاف الفاظ میں کہیں تو یہ کہ جب سلمان خان جتنی مشہور شخصیت کوئی جرم کرے، تو عوام کے اخلاقیات کے درس ایک طرف رہ جاتے ہیں۔
جب لاکھوں پرستار رکھنے والے سلمان خان کے بارے میں یہ فیصلہ آیا، تو جن لوگوں کی جانیں، ٹانگیں، اور زندگیاں ان کی گاڑی کے نیچے آ کر برباد ہوئیں، ان کے بارے میں کسی کو پرواہ نہ رہی، اور لوگ ان کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف بولتے نظر آئے۔
لیکن قانون کو وہی کرنا چاہیے، جس کی اس سے امید کی جاتی ہے، یعنی غیر جانبدار رہنا۔
اس کیس پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ سلمان خان اس کیس کے ہر قدم پر انتہائی لاپرواہ اور غیر ذمہ دار دکھائی دیے۔
صرف شراب پی کر گاڑی چلانا ان کی غلطی نہیں تھی۔ حادثے کی جگہ سے فرار ہوجانا، پولیس میں خود رپورٹ داخل نہ کروانا، متاثرین کے گھر والوں سے نہ ملنا اور نہ ہی انہیں معاوضے کی پیشکش کرنا، اور ایک دہائی سے بھی زیادہ تک کورٹ میں جھوٹ بولتے رہنا وہ چیزیں ہیں، جن کے بارے میں فیصلہ کرنا شری دیش پانڈے جیسے ججز کی ذمہ داری ہے۔
سب سے زیادہ حیران کن بات اس ایک شخص کا انٹرویو ہے، جس کی ٹانگ سلمان خان کی گاڑی کے نیچے آ کر ضائع ہوگئی تھی۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی سلمان خان کی فلمیں دیکھتے ہیں، تو ان کے تاثرات ایسے تھے جیسے یہ سب سے زیادہ بے وقوفانہ سوال ہو۔ پھر وہ صرف اتنا ہی کہہ سکے، کہ ہاں، میں اب بھی دیکھتا ہوں۔
یہی شہرت کی طاقت ہوتی ہے اور قانون کا ہاتھ ان مشہور شخصیات کو اپنی گرفت میں لانے میں ناکام رہتا ہے۔
ماریہ کاری فری لانس لکھاری ہیں، اور وینکوور، برٹش کولمبیا سے تعلق رکھتی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mariakari1414@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔