ماؤں کی شرح اموات، پاکستان 149ویں درجے پر
اسلام آباد: حکومت کے متعدد دعووں کے باوجود ملک میں صحت کی صورتحال کی نشاندہی کرنے والے پیمانے پستی کی جانب اشارہ کرررہے ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زچگی کے دوران ماؤں کی موت کی شرح کے لحاظ سے پاکستان کا درجہ نیچے گر کر 149 ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے سال اس حوالے سے پاکستان کا درجہ 147 تھا۔
افغانستان کو چھوڑ کر خطے کے تمام ملکوں میں صحت کے حوالے سے پاکستان سے کہیں بہتر صورتحال ہے۔
دنیا بھر میں ماؤں کی حالت پر رپورٹ ’’شہری دشواری‘‘ مقامی ہوٹل میں سیو چلڈرن کی جانب سے پیش کی گئی۔
اس رپورٹ میں دنیا میں شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ایسی غریب ماؤں اور بچوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جو مجموعی شہری ترقی کے باوجود بھی زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی موت کی شرح ایک لاکھ پیدائش میں 276 اموات اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی شرح لگ بھگ ایک ہزار پیدائش پر 89 اموات پچھلی ایک دہائی سے برقرار ہے۔
یہ اعدادوشمار اس وقت مزید تشویشناک ہوجاتے ہیں جب مختلف شہری علاقوں میں امیر اور غریب طبقات کے مابین عدم مساوات کا موازنہ کیا جاتا ہے۔جیسے کہ بلوچستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات 700 سے زیادہ ہے۔
شہری علاقوں میں دولت مند طبقے کے مقابلے میں غریب طبقے میں ماؤں کی اموات کی شرح ڈھائی گنازیادہ ہے۔ شہری علاقوں میں پیدا ہونے والے غریب بچوں میں دیہی علاقوں کے مقابلے میں اموات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی شرح کراچی جیسے شہر میں ایک ہزار پیدائش پر 68 اموات ہے۔
پاکستان کی 170 خواتین میں سے ایک کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
فی کس مجموعی قومی آمدنی ایک ہزار 360 ڈالرز ہے، اور خواتین کی قومی حکومت میں شراکت 19 فیصد ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں سروے کیا گیا، ان میں سے دو تہائی میں شہر کے غریب بچوں میں اموات کی شرح شہرکے امیر بچوں کے مقابلے دُگنی ہے۔
شہری علاقوں میں امیر اور غریب بچوں کے درمیان بقاکی شرح میں عدم مساوات گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بڑھ گئی ہے۔
ساٹھ فیصد ترقی پذیر ملکوں کے شہروں کے غریب بچوں میں دیہی علاقوں کے بچوں کے مقابلے میں موت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی رومینہ خورشید عالم نے رپورٹ کی تقریبِ اجراء کے موقع پر کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کی ذمہ داری ہے۔
سیوچلڈرن پاکستان پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ارشد محمود نے کہا کہ اس رپورٹ میں پہلی مرتبہ شہر کے غریبوں اور امیروں کے درمیان صحت کے تفاوت کا ایک عالمی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
جب ڈان نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کے چیئرمین خالد حسن مگسی سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ صحت کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کا درجہ مزید گرگیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ ان محکموں میں لگن کی کمی ہے، جو ہر مسئلے کے حل کے لیے شارٹ کٹ تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔