پاکستان

'بعض معروف شاعروں نے اردو کو نقصان پہنچایا'

حیات امروہی کا کہنا ہے کہ ظفر اقبال اور دیگر عجیب لسانی تجربات سے ہماری خوبصورت زبان اور شاعری کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

’’ایسا لگتا ہے کہ فیض احمد فیض، منیر نیازی اور احمد ندیم قاسمی سمیت بہت سے معروف شعراء نے ارادتاً اردو زبان کو نقصان پہنچایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ خدانخواستہ یہ ایک سازش تھی۔ ظفر اقبال اور ان کی طرز کے دیگر اپنے عجیب لسانی تجربات سے ہماری خوبصورت زبان اور شاعری کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آج ادارے قدیم ادب کو دوبارہ شایع کررہے ہیں، چنانچہ اصلی کام نایاب ہوچکا ہے۔ بہت سے شاعر اور مصنف اردو کو تنزلی سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں، یہ کام اداروں کی جانب سے کیا جانا چاہیے۔‘‘

یہ خیالات تھے حیات امروہوی کے، جو انہوں نے سعودی گزٹ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بیان کیے۔

حیات امروہوی سعودی عرب میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے بطور آرکیٹیکٹ کام کرچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’میں تبوک میں 1979ء کے دوران آیا تھا۔ میں نے اپنا پیشہ ورانہ کیریئر جدہ میں جاری رکھا۔ 1992ء میں، میں نے بحرِ احمر کے اس عروس البلاد کو الوداع کہا اور پاکستان واپس لوٹ گیا۔‘‘

حیات امروہوی نے کہا ’’میرے قیام کے دوران جدّہ کے ادبی ماحول نے میری روح و ذہن کو سیراب کیا۔ یہاں ان دنوں بہت سے شاعر اور دانشور موجود تھے، اور ان عظیم لوگوں کی وجہ سے جدہ کو اردو شاعری اور ادب کا مرکز بن گیا۔‘‘

’’آٹھویں جماعت میں مجھے چار دیگر طالبعلموں کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے ادیب فاضل کے امتحان کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ معروف ادبی شخصیت اور شاعر عقیل دانش، جو آج کل لندن یونیورسٹی میں اردو کی تدریس کررہے ہیں، اس وقت میرے کلاس فیلو تھے۔ میں سائنس کا طالبعلم تھا، لیکن میرا رجحان شعر و ادب کی جانب بھی تھا۔ ریاضی، سائنس اور ڈرائنگ میرے اہم موضوعات تھے، تاہم شاعری نے ہمیشہ میری روح پر اثر ڈالا۔ اس حوالے سے میری نظموں کا مجموعہ ’زاویۂ حیات‘ گواہ ہے۔ یہ میرے سائنسی ذہن اور ادبی روح کا مرکب ہے۔‘‘

حیات امروہوی کا اصل نام سید حیات النبی رضوی ہے۔ ان کی پیدائش 12 جولائی 1941ء کو امروہہ میں ہوئی۔ امروہہ اب ہندوستانی ریاست اتر پردیش کا حصہ ہے۔

ان کے والد سید خورشید حسن رضوی معروف صوفی اسکالر شاہ بدر چشتی کی اولاد تھے، ان کا پرنٹنگ کا کاروبار تھا، انہوں نے دسمبر 1947ء میں پاکستان ہجرت کی۔

حیات امروہوی نے کہا ’’ناصر کاظمی کی شاعری میں درد و الم کے عناصر نمایاں ہیں۔ پاکستان کے ایسے شاعروں اور دانشوروں میں رئیس امروہوی اور جون ایلیا کا نام سرفہرست ہے، جو اردو شاعری کے عظیم اساتذہ سے متاثر تھے۔

جون ایلیا نے اردو غزل میں اپنا مقام بنایا اور رجحان ساز بن گئے۔ یہ لوگ ہمہ وقت مصروف عمل رہتے اور اردو اور فارسی شاعروں کی عظیم روایات سے سیکھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔

ان مستعد لوگوں نے خود اپنی مثالیں قائم کرکے موجودہ نسل کی راہ متعین کرنے کی کوشش کی، تاہم پاکستان کی موجودہ نسل بہت تیزی سے آگے بڑھنے کی خواہشمند ہے۔ اب اس طرح کی سخت مشقت کو پسند نہیں کیا جاتا اور سستی شہرت ہمارے نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو شاعری اور ادب کا معیار روزبروز زوال پذیر ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی شاعری کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کی شاعری غزل کی جانب مائل ہے، جبکہ ہندوستان کی اردو شاعری میں گیت اور نظم کا غلبہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’ان دنوں پاکستان میں فاطمہ حسن، نجمہ خان، سرور جاوید اور سلمان صدیقی اچھی شاعری کررہے ہیں۔ کراچی میں آرٹس کونسل اردو زبان و ادب کے فروغ میں بہت متحرک کردار ادا کررہی ہے۔ ‘‘

حیات امروہوی نے بتایا کہ ’’میں نے انجمن ترقی اردو کی عمارت اردو باغ کا نقشہ تیار کیا تھا، جو معروف شاعر جمیل الدین عالیؔ کا ایک خواب تھا۔ جمیل الدین عالی کے ضعیفی کے باعث ریٹائرمنٹ کے بعد فاطمہ حسن اور ڈاکٹر جاوید منظر نے انجمن ترقی اردو کی مدد کی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’سیمیناروں اور کانفرنسوں کے انعقاد اور کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کو کراچی کی تقریبات میں باقاعدگی کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے، لیکن لاہور کی کانفرنسوں میں کراچی کے دانشوروں کو مشکل سے ہی شرکت کا موقع ملتا ہے۔‘‘