نقطہ نظر

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

آئے روز علم دوست اور دانشور شخصیات کا قتل معاشرے کو اندھیروں کی جانب دھکیل رہا ہے۔

اس حقیقت سے انکار قدرے دشوار ہے کہ دنیا میں اقوام کی معاشی اور سماجی خوشحالی تعلیم اور تحقیق میں ترقی سے ہی مشروط ہوتی ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی خوشحالی اور ترقی کا راز کچھ اور نہیں، بلکہ یہی تعلیم و تحقیق ہے، اور اس بات کا اندازہ مغربی ممالک کے تعلیم و تحقیق پر بے تحاشہ دولت خرچ کرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن اس حقیقت کے ادراک کے باوجود پاکستان میں سماجی صورتحال اتنی مخدوش ہے کہ یہاں ایک عام آدمی کو تو کیا، اساتذہ، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، وکلاء، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معتبر افراد کو بھی دن کی روشنی میں سرِ عام بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ مگر افسوس، حکومت کی جانب سے سوائے رسمی بیانات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بے اثر روایتی کارروائیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔

پاکستانی معاشرے کی تنزلی کا ماتم کرنے کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ گذشتہ 5 سالوں میں ملک، خاص طور پر کراچی اور سندھ بھر میں 130 سے زیادہ ڈاکٹر فرقہ واریت، اغواء برائے تاوان، اور بھتہ وصولی کے نام پر قتل ہوچکے ہیں، جبکہ ان وارداتوں کا کم و بیش جاری رہنا اس بات کا غمّاز ہے کہ مختلف جمہوری حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت حساس ادارے بھی ان سنگین جرائم کی روک تھام میں ناکام نظر آتے ہیں۔

یوں تو اس شہرِ ستم زدہ میں دانشوروں، صحافیوں، اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹروں، شاعروں، ادیبوں اور بے قصور قتل ہونے والے عام شہریوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن گذشتہ ماہ اپریل میں معروف سماجی کارکن سبین محمود، اور ان کے بعد اس ہی مہینے جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کے ہردلعزیز استاد اور معروف صحافی ڈاکٹر سید وحیدالرحمن المعروف یاسر رضوی کے سرِعام قتل نے ایک بار پھر کراچی کے شہریوں اور بالخصوص صحافتی، علمی و ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے زخم ہرے کردیے ہیں۔

کراچی میں جاری رینجرز کے آپریشن سے کسی حد تک جرائم، بالخصوص ٹارگٹ کلنگ میں کمی واقع ہوئی تھی، لیکن ان دو افراد کے قتل کے بعد تو علمی حلقوں میں ایک سوگ کا سا سماں ہے جبکہ انسانی سرفرازی اور سر بلندی کے لیے کوشاں خردمند افراد میں ایک مایوسی پھیل گئی ہے۔ ان افراد کے قتل کا ذمہ دار کوئی بھی ہو، ہے بہت ہی ظالم، جو معاشرے سے اس کے دانشور چھین لینا چاہتا ہے۔

آج ہمارا معاشرہ ستمگروں اور قاتلوں کے لیے نہ جانے کیوں محفوظ مقام بلکہ محفوظ جنت جیسا بن چکا ہے۔ ماضی میں یہی معاشرہ پرسکون اور علم دوست تھا۔ علمی اور ادبی محافل کا تسلسل سے انعقاد اس معاشرے کا تہذیبی خاصہ تھا، جبکہ اس وقت جمہوری اقدار بھی اتنی زیادہ عام نہ تھیں جتنی کہ آج ہیں۔

ذرائع ابلاغ بھی آزاد نہ تھے، نہ ہی معاشرے میں اتنے تعلیمی ادارے تھے۔ اتنی مساجد اور مدرسے نہ تھے، لیکن پھر بھی معاشرے میں انسانی اقدار زندہ تھیں۔ شہریوں کی پسندیدہ شخصیات علمی و ادبی اور صاحبانِ کمال ہوا کرتی تھیں، خواتین کا احترام تھا، رسوم و رواج اور تہذیبی اقدار اپنے مشرقی رنگ سے باہر نہ تھیں، مگر دورِ حاضر میں سماجی ڈھانچہ انتہائی مخدوش ہو چکا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ یہ حقیقت سپردِ قرطاس کررہا ہوں کہ 18 سے 20 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں چند سال پہلے تک کسی معروف شاعر یا ادیب کی ایک ہزار سے زیادہ کتب کی اشاعت نہیں ہوتی تھیں، اور اب یہ تعداد 1000 سے گر کر 500 اور اس سے بھی کم تعداد پر آگئی ہے۔ اس بات سے ہمارے معاشرے کی علم دوستی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایسے علم و ادب سے بے بہرہ معاشروں میں جہاں لوگ افکار پر بات کرنے یا سننے سے متلی محسوس کرتے ہوں تو وہاں انتہا پسند اور غیر عقلی و غیر فطری افکار ہی جنم لیتے ہیں۔ ایسے ہی معاشروں میں اساتذہ اور صاحبانِ کمال کو بے قصور اور بے دردی سے سرِ عام قتل کر دیا جاتا ہے۔

ژاں ژاک روسو (Jean-Jacques Rousseau) نے کہا تھا کہ "انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔"

یعنی جو لوگ خود کو آزاد اور دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں، درحقیقت وہ بھی اتنے ہی، یا اس سے زیادہ غلام ہوتے ہیں۔

روسو کا یہ جملہ شہرہ آفاق ہے، جس کی انقلاب آفرینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر روسو کا تعلق عہدِ جدید سے ہوتا، تو یقیناً یہ کہا جاسکتا تھا کہ روسو نے یہ جملہ شاید پاکستانی معاشرے اور اس زندان میں قید افراد کو دیکھ کر کہا ہوگا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہم سب ہی خود کو آزاد سمجھتے ہیں، جبکہ ہیں نہیں۔

ہمارے معاشرے میں انسان کو جکڑنے کے لیے کوئی ایک نہیں بلکہ تعصبات، ناخواندگی، لسانیت، فرقہ واریت، غیر معقول رسوم و رواج، اوہام پرستی، مذہبی امتیازات، غیر منطقی عقائد، جاگیرداری، اور سرمایہ داری جیسی سینکڑوں زنجیریں ہیں، جو ویسے تو غیر مرئی ہیں، لیکن ہماری قدموں کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہیں۔

ان تمام مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اکثر سوچتا ہوں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جس کی بناء پر ہمارے لائق شعراء، ادباء، قلمکار، حقیقی علما اور صاحبِ بصیرت سیاستدانوں نے پاکستان کی مظلوم قوم کو جاہل مفاد پرست جاگیردار و سرمایہ دار سیاست دانوں اور نام نہاد مولویوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کو اندھیرے سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن یا تو گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں، یا خوف کی بناء پر زبانیں بند رکھنے پر مجبور ہیں۔

آج معاشرے کو انہی اکابر کی شدید ضرورت ہے، جو اپنے گھروں میں قید ہیں۔ ان کے تحرک سے ہی جاہل، ناخواندہ سیاستدانوں سے، جن میں سے بعض کے اجداد انگریزوں کے نمک خوار بھی تھے، معاشرے کو نجات ملے گی، اور یقیناً شہریوں کو ایک ایسا معاشرہ میّسر آئے گا، جہاں وہ علم و ادب کی چھاؤں میں اپنی آنے والی نسلوں کی پرورش کرسکیں گے۔

جنہیں محفلوں سے غرض نہ تھی، وہ جو قید اپنے گھروں میں تھے

وہی اعتبارِ زمانہ تھے، وہی لوگ دیدہ وروں میں تھے

(فراست رضوی)

سید جعفر عسکری

سید جعفر عسکری انگریزی اور اردو دونوں زبانوں سے منسلک ایک پیشہ ور صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ادبی اور سماجی حلقوں میں ان کی پہچان نہ صرف صحافی، بلکہ ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AskariJAFAR@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔