دنیا

افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ

نیلوفر رحمانی افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ کا اعزاز پانے میں کامیاب رہی ہیں۔

طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد موت کی دھمکیوں اور مردوں کے بالادست معاشرے کی عام روایات کے برعکس نیلوفر رحمانی افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ کا اعزاز پانے میں کامیاب رہی ہیں۔

خاکی رنگ کی وردی اور سر پر سیاہ رنگ کے اسکارف میں ملبوس 23 سالہ نیلوفر رحمانی کابل ائیر فورس بیس پر نمایاں محسوس ہوتی ہیں جو کہ عام طور پر خواتین سے خالی ہوتی ہے۔

نیلوفر رحمانی کا اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا " بچپن سے ہی جب میں آسمان پر کسی پرندے کو دیکھتی تو میں طیارہ اڑانے کی خواہش کرنے لگتی، افغانستان کی بیشتر لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں مگر متعدد مسائل اور دھمکیاں تعبیر کے راستے میں آکھڑی ہوتی ہیں"۔

نیلوفر کابل میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی، 2010 میں ایک ائیر فورس ٹریننگ پروگرام میں نیلوفر کا داخلہ ہوا جس کو انہوں نے اپنے تمام رشتہ داروں سے پوشیدہ رکھا کیونکہ وہ خواتین کا گھر سے باہر کام کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

2 سال بعد وہ افغانستان کی پہلی خاتون ہوا باز بن گئیں اور ملک کی پہلی خاتون پائلٹ کا اعزاز اپنے نام کیا۔

اس ناممکن خواب کی تعبیر پر نیلوفر کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے باہمت خواتین کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اور سوشل میڈیا میں ان کو 'افغان شارٹ گن' کے نام سے کافی مقبولیت ملی۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ طالبان سے قبل کمیونسٹ عہد میں افغان خواتین پائلٹ موجود تھیں مگر اس حوالے سے تفصیلات موجود نہیں۔ امریکا نے تقریباً 14 سال پہلے طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد افغان خواتین کو معاشرے میں آگے بڑھنے کا موقع ملا اور وہ اراکین پارلیمنٹ اور سیکیورٹی عہدیداران کی شکل میں عام نظر آنے لگی ہیں۔

اس کے بعد افغانستان کے حالات میں تبدیلی آئی اور خواتین کو ان کے حقوق ملنا شروع ہوگئے ورنہ اس سے پہلے خواتین کو بنا کسی مرد کے گھر سے باہر نکلنا بھی منع تھا۔

لیکن اب بھی صنفی مساوات ایک دور دراز کا خواب ہے کیونکہ قدامت پسند رویہ تاحال معاشرے میں نمایاں ہے۔

نیلوفر کو بھی طالبان کی جانب سے کئی دھمکیاں موصول ہوئی جس کی وجہ سے 2013 میں انکو 2 ماہ کے لئے ملک سے باہر بھی جانا پڑا۔

نیلوفر کے مطابق طالبان مجھے اور میرے گھر والوں کو نقصان پہچانے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ جس پر میرا ردعمل ان کو نظر انداز کرنا تھا۔

اس کے علاوہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ تحفظ کے لیے اسلحہ رکھتی ہیں اور اپنے یونیفارم میں کبھی بیس سے باہر نہیں جاتیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میری آزادی ختم ہوکر رہ گئی ہے اور عام چیزیں جیسے گلیوں میں چہل قدمی اور شاپنگ کے لیے جانا اب ممکن نہیں رہا۔

'مجھے امید ہے'

تاہم دھمکیوں سے ہٹ کر بھی قدامت پسندانہ سوچ نیلوفر کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں افغانستان ماضی کے دور میں ہی پھنس کر رہ گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ سب سے زیادہ دل برداشتہ اس وقت ہوئی جب کابل میں ایک ہجوم نے فرخندہ نامی نوجوان خاتون کو ایک غلط فہمی پر بے رحمی سے مار ڈالا۔

ان کا کہنا تھا "جانورو بھی ایسا دیگر جانروں کے ساتھ نہیں کرتے، اس خاتون کو مارنے والے طالبان نہیں بلکہ افغانستان کے عام لوگ تھے"۔

رحمانی نے مزید بتایا کہ انہیں وہ لمحہ یاد ہے جب زخمی فوجیوں کو شورش زدہ جنوبی صوبے سے منتقل کرنا تھا جس کی ان کو اجازت نہیں دی جارہی تھی، اس موقع پر انہوں نے اعلیٰ حکام کے احکامات پر عمل نہیں کیا۔

انہوں نے اسکی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ خواتین کو کمزور دل کا سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں زخمیوں کو منتقل کرنے سے عموماً روک دیا جاتا ہے۔

انہوں نے اس کام کو ختم کرنے کے بعد اپنے کمانڈر سے کہا اگر انکو لگتا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط کیا ہے تو وہ انکو سزا دے سکتے ہیں۔

جس پر انکے کمانڈر مسکرائے اور نیلوفر کو سراہا۔

رحمانی نے مزید بتایا کہ ایک صبح ائیر بیس پر ایک پائلٹ نے ان سے ہاتھ ملانا چاہا جس کو انہوں نے منع کردیا اور وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں مرد عورت کے ہاتھ ملانے کو بھی غلط سمجھ لیا جاتا ہے۔

نیلوفر رحمانی 3 خواتین پائلٹ میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2001 کے حملے کے بعد ائیر فورس میں ٹریننگ حاصل کی۔

رحمانی سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ ائیر فورس میں کتنے سالوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہوجائے گی تو نیلوفر کا کہنا تھا کہ ایسا ہونے میں 20 یا 30 سال لگ سکتے ہیں لیکن انکو امید ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔