ایان کے ریمانڈ میں توسیع، الرجی کی ادویات کا وعدہ
راولپنڈی کی مقامی عدالت نے منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار ماڈل ایان علی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 27 اپریل تک توسیع کردی ہے۔
چودہ روزہ ریمانڈ ختم ہونے پر جمعے کو ایان علی کو سخت سیکیورٹی میں راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بہادرعلی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
یاد رہے کہ مذکورہ کیس کی گزشتہ سماعت کے دوران کسٹم حکام کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اگلی سماعت میں چالان پیش کریں، تاہم چالان پیش نہیں کیا جاسکا۔
آج ماڈل ایان علی کے وکیل سردار اسحاق کی جانب سے دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ کسٹم کی تفتیشی ٹیم 14 روز میں چالان پیش کرنے کی پابند ہے تاہم 28 روز گزرنے کے باوجود چالان پیش نہیں کیا گیا، جو خلاف قانون ہے اور ان کی موکل کو جان بوجھ کر تنگ کیا جارہا ہے۔
جس پر عدالت نے کسٹم حکام کو چالان پیش کرنے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیا جبکہ ملزمہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 27 اپریل تک کی توسیع کردی گئی۔
بعد ازاں کسٹم حکام نے منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار ماڈل ایان علی کا عبوری چالان میں پیش کردیا، جس میں ایان علی، بزنس مین محمد اویس اور پراپرٹی ڈیلر ممتاز حسین کو ملزم نامزد کیا گیا۔
سماعت کے دوران جج نے ایان علی سے جیل میں ملنے والی سہولیات کے بارے میں استفسار کیا، جس پر ماڈل کا کہنا تھا کہ وہ موسمی الرجی کا شکار ہوگئی ہیں، لیکن جیل میں ادویات اور علاج کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔
عدالت نے جیل انتظامیہ کو حکم دیا کہ ایان علی کوعلاج کی بہتر سہولت اور ادویات فراہم کی جائیں۔
ماڈل ایان علی کو رواں برس مارچ میں اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دبئی جاتے ہوئے اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب دورانِ چیکنگ ان کے سامان میں سے 5 لاکھ امریکی ڈالر برآمد ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ اتنی بڑی رقم لے جانا کسٹم قوانین کے خلاف ہے اور منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔
ایان علی کا خود کو نقصان پہنچانے کا خدشہ
اڈیالہ جیل میں منی لانڈرنگ کے الزام میں قید ایان علی کے ساتھ تین قیدیوں کو محض اس خدشے کے ساتھ رکھا گیا ہے کہ کہیں سپرماڈل کو دوسرے قیدی یا وہ خود اپنے آپ کو ہی کوئی نقصان نہ پہنچالیں۔
جیل ذرائع کے مطابق محکمہ جیل کو ماڈل کی زندگی کے حوالے سے خدشات لاحق تھے، لہذا تین خواتین قیدیوں کو ایان علی کی بیرک میں رکھا گیا ہے تاکہ انھیں کمپنی دینے کے ساتھ ساتھ اُن کی حفاظت بھی کی جاسکے۔
یاد رہے کہ اڈیالہ جیل میں ایان علی کو ایک علیحدہ بیرک فراہم کی گئی تھی۔
جیل ذرائع کے مطابق سپر ماڈل اور ان کی ہم کمرہ قیدی خواتین کو اپنا کھانا خود بنانے کی اجازت دی گئی ہے،کیونکہ ایان علی کو جیل میں فراہم کیا جانے والا کھانا پسند نہیں ہے۔
محکمہ جیل کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ایان علی کا کیس ایک ہائی پروفائل کیس ہے، جنھیں میڈیا کی جانب سے منفی کوریج دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز میں قیدی کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
مذکورہ افسر کے مطابق ایان علی بہت پریشان نظر آتی ہیں اور جیل حکام کو خدشہ ہے کہ کہیں وہ خودکشی کی کوشش نہ کرلیں۔ 'ہم اس کیس کے حل ہونے تک ان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی تنہائی کو کم کرنے اور اُن کے گرد سیکیورٹی بڑھانے کے لیے ایان علی کے ساتھ تین خواتین کو رکھا گیا ہے'۔
انھوں نے بتایا کہ ایان علی کو دیگر قیدیوں سے کوئی بھی چیز لے کر کھانے سے منع کیا گیا ہے اور انھیں جب بھی کھانے کے لیے کوئی چیز دی جاتی ہے تو اسے اچھی طرح سے چیک کیا جاتا ہے۔
جب اس سلسلے میں ڈپٹی انسپکٹرجنرل اڈیالہ جیل جنرل شاہد سلیم بیگ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ایان کے ساتھ تین قیدیوں کو رکھے جانے کا اعتراف کیا تاہم جنرل شاہد نے مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
ذرائع کے مطابق ایان علی کو عدالت لے جانے والی وین کی حفاظتی ٹیم کا حصہ بننے کے لیے بھی بہت سے پولیس افسران نے پیشکش کی ہے، ان افسران کی 'رضاکارانہ' پیش کش کے پیچھے محض ایک مقصد ہے کہ وہ اڈیالہ جیل کی 'سیلیبرٹی قیدی' کی محض ایک جھلک دیکھ سکیں۔
یہ بھی علم ہوا ہے کہ پولیس اہلکار محرر کو فاسٹ فود چین پر کھانا کھلا کر یا 4 ہزار تک کی رقم ادا کرکے ماڈل ایان کو عدالت لے جانے والی حفاظتی ٹیم کا حصہ بننے کے لیے راضی کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔