نقطہ نظر

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

20 ویں صدی کے برعکس عالمی سیاست اب نظریات کے بجائے مفادات کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہم اس بات کو کب سمجھیں گے؟

نائن الیون کے بعد عالمی سیاسی منظرنامے نے گرگٹ کی طرح مختلف روپ دھارے ہیں۔ عالمی سرکس میں برپا ہونے والے سیاسی تماشے نے اس قدر سحر طاری کر رکھا ہے کہ مستقبل کی عالمی بساط پر کسی بھی قسم کی کوئی پیشگوئی کرنے کے لیے منطقی وعقلی دلائل بھی اتنے ہی غیر موزوں دکھائی دیتے ہیں جس قدر پاکستان کے چوک چوراہوں میں برپا ہونے والی سیاسی ریلیاں۔

ایک چیز جو نہایت واضح ہوئی ہے، وہ ہے ریاستوں کا اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوئی بھی راہ اپنانا۔ ہرچند کہ بیسویں صدی میں سرد جنگ کے اختتام پر نظریاتی تقسیم پر مبنی سیاسی دنیاؤں کا خاتمہ ہوچکا تھا، مگر اِکا دُکا مقامات پر اس کے بعد بھی بعض عالمی سیاسی اکھاڑے وسیع سمندر میں واقع چھوٹے چھوٹے جزیروں کی مانند نظریاتی تقسیم کی لکیر واضح کر رہے تھے۔

عالمی امور کے طلبہ کو اس وقت ڈرامائی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب عرب اسپرنگ کے جن نے بوتل سے اپنا سر باہر نکال لیا، اور اس نکلتے ہوئے جن کو دیکھ کر بعض عرب بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیے خود کو چھپانے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔

حد تو اب ہونے کو آرہی ہے۔ پچھلے دو مہینوں کے عرصے میں عالمی سیاسی کھلاڑیوں نے شطرنج کے اس عالمی کھیل میں اس قدر سیاسی چالیں چلی ہیں کہ پے در پے نمودار ہونے والی بریکنگ نیوز بھی اب کسی قسم کی سنسنی پیدا کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔

عالمی میڈیا کے مبصرین جو یوکرین اور شام کے تنازعات سے روزی روٹی کا سامان بنا رہے تھے، اب اتنے مختلف موضوعات میں الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ پر رائے دہی کریں یا براعظم امریکہ پر۔ جبکہ یوکرین کی جنگ بھی سرد نہیں ہو پائی اور صدر پیوٹن بھی دو مہینے غیبت میں رہنے کے بعد نمودار ہو کر ایران کو S300 میزائل فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں۔

اور اگر امریکہ کیوبا تعلقات پہ توجہ دی جائے، تو خیال آتا ہے کہ اگر چی گویرا آج زندہ ہوتے تو اپنا سر دیوار میں ٹکرا کر پاش پاش کر چکے ہوتے, کیونکہ امریکہ اور کیوبا میں پگھلتی ہوئی برف کو آنچ صرف صدر اوباما نے ہی نہیں دی، بلکہ فیڈل کاسترو کے ہاتھ سے لکھے خطوط نے بھی اس میں اتنی ہی مدد کی ہے۔

یہاں قریب میں مشرقِ وسطیٰ چلے آئیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو آتی ہیں۔ سعودی عرب، جو ماسکو کو اسی آنکھ سے دیکھتا ہے جس آنکھ سے کیدو رانجھے کو دیکھا کرتا تھا، برادرِ معظم و محترم عبدالفتح السیسی پر قربان ہوا جارہا ہے۔ اور حضرتِ سیسی ہیں کہ ماسکو سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ اور ماسکو والے بھی تو حد درجہ منافق ہی ہوئے ناں؟ کہ ریاض کو تو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور تہران پر صدقے واری جاتے ہیں۔

اور ذرا اس چھوٹے سے قطر پہ دھیان دیجیے۔ ایک طرف تو یہ خلیج تعاون کونسل میں سعودی عرب کی قیادت میں حوثیوں کو راہِ عدم دکھا رہا ہے، تو ایک خفیہ ہاتھ سے شام میں سعودی مفادات پر لٹکتی ہوئی تلوار کی دھار کو بھی تیز کیے جاتا ہے۔

السیسی ایک جانب تو قطر کو آنکھیں دکھاتے ہیں کہ خبردار جو اگر ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی تو! اور پھر اسی قطر کے شانہ بشانہ یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت اپنا حق سمجھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔

تہران، جس کے چار ہاتھ بیروت، دمشق، بغداد، اور صنعاء میں مصروف ہیں، ایک پانچویں ہاتھ سے پاکستان کو پاکستان کے ہی علاقے میں تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کر چکا ہے۔

اب جبکہ عالمی سیاست کی اس چومکھی لڑائی میں وطنیت پر مبنی ریاستیں اپنے قومی مفادات جیتنے کے لیے رنگ، نسل، نظریہ، مذہب، مسلک، اور لاکھوں انسانوں تک کی قربانی کے حربے استعمال کر رہی ہیں، تو وطنِ عزیز آج بھی غیروں کے مفادات میں قربان گاہ کیوں بن رہا ہے؟

ذراغور کیجیے کہ اگر کیوبا اور امریکہ پچاس سال بعد بھی مسائل حل کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پہ بیٹھ سکتے ہیں۔

اگر ماسکو تہران اور قاہرہ دونوں کا بیک وقت دفاعی پارٹنر ہوسکتا ہے۔

اگر شیعہ ایران سنی حماس کا پشت پناہ ہوسکتا ہے۔

اگر امریکہ اور ایران، عراق اور افغانستان میں برگر اور قہوہ ایک ساتھ انجوائے کر سکتے ہیں۔

اگر حوثی چالیس سال سعودی امداد کھانے کے بعد بھی سعودیوں کو آنکھیں دِکھا سکتے ہیں۔

اگر شیطانِ بزرگ امریکہ اور رہبرِ معظم علی خامنہ ای خطوط کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔

اگر یوکرین کریمیا دے کر بھی روس کے ساتھ امن پر راضی ہوسکتا ہے۔

اور تو اور اگر احمدی نژاد والا ایران مغرب اور امریکہ کے سامنے یورینیم کی افزودگی کم کرنے کا معاہدہ قبول کر سکتا ہے، تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وسیع تر قومی مفادات کا حصول ہر اس قول، وعدے، اور معاہدے پر بھاری ہوتا ہے جو ریاستیں مختلف اوقات میں وقتی فوائد حاصل کرنے کے لیے کیا کرتی ہیں۔

کاش! پاکستان کے حکمران یہ سمجھ لیتے کہ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، گلگت، اور مظفرآباد کی سالمیت اور ان کا تحفظ دنیا جہاں کے امن اور سالمیت سے کہیں زیادہ اہم ہے، تو یقین جانیے کہ عالمی نقشے پر خوردبین سے دکھائی دینے والی ایک ریاست کا وزیر ہمیں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینے کی ہمت نہ کر سکتا۔

شوذب عسکری

لکھاری کو سیاسیات، ثقافت اور تاریخ پڑھنے کا شوق ہے اور وہ مذاہبِ عالم کی بھول بھلیوں میں آوارہ گردی کر کے ان کے اسرار و رموز کا کھوج لگانا چاہتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ShozabAskari@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔