سائبر کرائم بل آزادی پر خطرناک حملہ کیوں ہے؟
گذشتہ چند ماہ پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے لیے جدوجہد سے بھرپور رہے۔ یہ لوگ بھلے ہی ملک میں موجود طرح طرح کے سماجی کارکنوں کے سامنے اقلیت میں ہیں، لیکن ان کے سامنے اب پاکستان الیکٹرونک کرائم بل (PECB 15) موجود ہے، جسے منظور کروانے کے لیے حکام پوری کوشش کر رہے ہیں۔
فی الوقت یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنولاجی نے منظور کرلیا ہے، اور اب یہ آسانی سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس کا پس منظر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ یہ بل اتنی تیزی سے منظوری کے مراحل کیوں طے کرتا جا رہا ہے، اور یہ مجوزہ بل کیوں بحیثیتِ شہری ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
دسمبر 2014 میں ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ 'بولو بھی' نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی، تاکہ ویب سائٹس پر پائے جانے والے مواد کی جانچ پڑتال کے لیے قائم کی گئی بین الوزارتی کمیٹی (IMCEW) کی آئینی و قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جا سکے۔
بولو بھی نے رائٹ ٹو انفارمیشن، یعنی جاننے کے حق کے تحت دائر کی گئی درخواستوں کے تحت یہ پایا تھا کہ IMCEW کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، لیکن پھر بھی وہ انٹرنیٹ پر موجود مواد کو بلاک کرنے کے احکامات جاری کر رہی تھی، چاہے وہ توہینِ مذہب پر مبنی یا غیر اخلاقی ہوں یا نہ ہوں۔
جب عدالتوں کو اس بات پر یقین ہوگیا کہ یہ کمیٹی غیر آئینی ہے، تو اسے مارچ میں تحلیل کر دیا گیا۔ لیکن جیسا کہ توقع ظاہر کی جا رہی تھی، ہمارے وزیرِ اعظم نے بیان جاری کردیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس اب آن لائن مواد چیک اور بلاک کرنے کا اختیار ہوگا۔ وزیرِ اعظم چیک اور بلاک کرنے کے مرحلے میں شفافیت اور جوابدہی کی عدم موجودگی کو نظرانداز کر گئے۔
پی ٹی اے کا قیام ایک پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ پی ٹی اے کو حاصل اختیارات کا تعین قانون کرے گا، نہ کہ وزیرِ اعظم کا جاری کردہ بیان۔
اور یہی وجہ ہے کہ اس بل کے بارے میں جاننا ہمارے لیے ضروری ہے۔
مجوزہ سائبر کرائم بل کی شق 31 کے مطابق پی ٹی اے کو
"اختیار حاصل ہے کہ وہ معلومات کے کسی بھی نظام (انفارمیشن سسٹم) کے ذریعے کسی بھی مواد تک رسائی کو ناممکن بنائے، یا اس مواد کو ہٹا سکے، اگر وہ سمجھے کہ ایسا کرنا اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہینِ عدالت، کسی جرم [کے ارتکاب] یا اس کی ترغیب کے حوالے سے ضروری ہے۔"
ان مبہم الفاظ کے ذریعے پی ٹی اے کو تقریباً ہر طرح کا مواد ہی بلاک کرنے کی آزادی مل جائے گی۔
مثال کے طور پر امریکا یا سعودی عرب پر تنقید 'دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات' کے مفاد میں روکی جا سکتی ہے۔ اس طرح کوئی بھی اخبار، آن لائن میڈیا، یا سوشل میڈیا پر موجود کوئی بھی مواد فوراً بلاک کیا جا سکے گا۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کے کسی بھی حکم، یا اس مواد کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہوگی کہ آیا وہ غیرقانونی اور نقصاندہ ہے بھی یا نہیں۔ اسے بس انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے گا۔
ہم نے فہد حسین کے اماراتی وزیر کے بیان پر لکھے گئے کالم کے ساتھ ایسا ہوتا ہوا دیکھا ہے۔ آج اگر کوئی مواد بلاک ہوتا ہے، تو ہم اسے چیلنج کر سکتے ہیں، لیکن ایک دفعہ یہ بل پاس ہوگیا، تو ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکیں گے۔
میں اس حوالے سے کئی مثالیں پیش کر سکتی ہوں، کہ اوپر دی گئی وجوہات کو بنیاد بناتے ہوئے کیا کیا بلاک یا بین کیا جا سکتا ہے، لیکن ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ پاکستان میں قومی سلامتی کے لیے نقصاندہ، یا دہشتگردی قرار دے کر کیا کیا چیزیں بلاک کی جا چکی ہیں۔
اور آن لائن مواد کو بلاک یا اس پر پابندی کے خلاف اپیل کا آئینی حق ہم سے چھیننے کے لیے حکومت Prevention of Electronic Crimes Act 2015 پاس کرنا چاہتی ہے، جس کے ذریعے پی ٹی اے کسی بھی طرح کے مواد کو معلومات کے کسی بھی ذریعے (موبائل فون، ٹی وی، ایکس باکس، پلے اسٹیشن وغیرہ) پر بلاک کر سکتی ہے، اور آپ اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکیں گے۔
لیکن چیلنج کرنے کے ہمارے حق کے علاوہ اس بل نے ہماری آزادیء رائے اور اظہار پر بھی پابندی لگانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 19 کہتا ہے کہ
"اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہینِ عدالت، کسی جرم [کے ارتکاب] یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہوگا، اور پریس کی آزادی ہوگی۔"
یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی ایک مشہور ویب سائٹ Article19.org پاکستان کے ایک مخصوص انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کی جانب سے بلاک کی جاچکی ہے، اور جب ان سے پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا پی ٹی اے کے احکامات پر کیا گیا۔ جبکہ یہ بل کی منظوری سے پہلے 15 اپریل 2015 کو تھا۔
آخر کیسے آزادی اظہار کے لیے کام کر رہی کوئی ویب سائٹ اسلام کی عظمت یا ملکی سلامتی، دفاع، اور خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ اس سے صرف حکومت کو تکلیف ہوتی ہے، اور بس۔
یہ مجوزہ بل یہی کرے گا؛ یہ ہم سے اپنی رائے کے آزادانہ اظہار، لکھنے، کارٹون بنانے، خاص طور پر سیاسی کارٹون بنانے، یا کسی کی اجازت کے بغیر تصاویر اپ لوڈ کرنے کو ناممکن بنا دے گا۔
اور صرف یہی نہیں، آپ کسی شخص کی اجازت کے بغیر اسے ٹیکسٹ میسیج یا ای میل تک بھی نہیں بھیج سکیں گے۔ سائبرکرائم کے اس سیاہ قانون کا تازہ ترین ڈرافٹ پڑھیے، اور آپ خود جان جائیں گے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں اسپیمنگ، یعنی بلا اجازت پیغامات بھیجنے کو مختلف طریقے سے ہینڈل کیا جاتا ہے، اور سزا صرف تب دی جاتی ہے جب ایسا تجارتی مقاصد کے لیے کیا جائے، لیکن یہاں پر معاملہ بالکل الٹ ہے۔
اور اگر آپ پر اس بل کے تحت کوئی الزام عائد کیا جاتا ہے، تو یا تو وارنٹ صرف رسمی ہوگا، یا پھر ہوگا ہی نہیں۔ اس بل میں وارنٹس کے متعلق الفاظ اتنے مبہم ہیں، کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں صرف رسماً شامل کیا گیا ہے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ دفاع کرنے والوں کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہوگا۔
قانون کے تحت انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز 90 دن کے لیے آپ کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کے لیے پابند ہوں گی، اور اس لیے انہیں آپ کی براؤزنگ ہسٹری، یا دیگر ایسی معلومات جسے ہم کبھی ذاتی اور خفیہ سمجھتے تھے، ظاہر کرنے کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر آپ پر اس قانون کے تحت کیس ہوجائے، تو آپ کو تفتیشی حکام کو اپنے تمام ڈیٹا، چاہے آن لائن ہو، یا آپ کے کمپیوٹر یا دیگر ڈیوائسز میں موجود ہو، رسائی دینی پڑ سکتی ہے۔
ڈیٹا کے تحفظ کے کسی قانون کی عدم موجودگی، اور مبہم الفاظ پر مشتمل ایک سائبر کرائم قانون کو متعارف کروانا ملک میں شہری آزادیوں اور کاروباروں کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔
مجوزہ بل میں موجود یہ شقیں تقریر کی آزادی، اظہار کی آزادی، میڈیا کی آزادی، بلاوجہ تلاش اور گرفتاری سے تحفظ، اور کاروبار کی آزادی چھین لیتی ہیں۔ اس بل کی شکل و صورت سے میڈیا آؤٹ لیٹس بھی اس قانون کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
اس بل کو ڈرافٹ کرنے والے شاید یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستانی شہری کو کچھ حقوق حاصل ہیں، اور ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی قانون پاس نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس بل کا اسمبلی فلور تک پہنچنا تشویش کا باعث ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ قانون سازوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ یہ قانون ہمارے آئینی حقوق کے خلاف ہوگا۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہم بطورِ شہری اس بات کو سمجھیں کہ اس بل کے ساتھ مسئلہ کیا ہے، اور اس بل کی حمایت کسی صورت بھی نہ کریں۔
ہمیں بولنا ہوگا۔ آخر اب نہیں، تو کب؟
مدیحہ لطیف رائڈر یونیورسٹی، نیو جرسی سے پولیٹیکل سائنس، اکنامکس، اور گلوبل اسٹڈیز میں گریجویشن کر چکی ہیں۔ وہ 2013 سے 'بولو بھی' کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: madiha_latif@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔