ملٹی میڈیا

حسن ابدال میں غاروں کے مکین

حسن ابدال اور اطراف میں آج بھی بہت سے لوگ غاروں میں رہتے ہیں۔

غار اوائل دور کے انسانوں کیلئے بطور پناہ گاہ یا رہائش استعمال ہوتے رہےہیں اورموجودہ دور میں غاروں کے اندر زندگی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

تاہم، پاکستان کے دارالحکومت سے 40 کلومیٹر دور حسن ابدال شہر میں آج بھی ایک خاندان غاروں میں رہتا ہے۔

ان میں سے بہت سے غار شہر کے قلب میں کیڈٹ کالج حسن ابدال، محلہ ارشاد نگر اور گرین ٹاؤن کے قریب جبکہ کچھ غار نواحی دیہی علاقوں مثلاً نکو ، بائی وغیرہ میں موجود ہیں۔

ان غاروں میں بسنے والوں کو موجدہ دور کی تقریباً تمام سہولیات مثلاً پانی، بجلی اور کیبل ٹی وی وغیرہ موجو د ہیں۔

ان غاروں کو اپنا گھر قرار دینے والوں نے انہیں انتہائی خوبصورتی سے سجا بھی رکھا ہے۔

پینٹ سے مزین دیواروں میں شیلف بنائے گئے ہیں جبکہ یہاں آپ کو میز، کتابیں اور دوسری روزمرہ کی اشیاء بھی باآسانی دکھائی دیں گی۔

ایک مقامی سماجی کارکن شاہد خان نے بتایا کہ غربت اور مہنگائی نے ان لوگوں کو'پتھروں کے زمانے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا ہے'۔

92 سالہ مسز صادق سلطان نے بتایا کہ جہاں تک انہیں یاد پڑتا ہے ان کی پوری زندگی اسی غار میں گزری۔

'یہ غار ہمارے آباؤ اجداد نے بنایا اور اب یہاں ہماری پانچویں نسل آباد ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ غاروں میں رہنے کے اپنے فوائد ہیں۔ یہاں گرمیوں میں کمرے ٹھنڈے جبکہ سردیوں میں گرم ہوتے ہیں۔

ایک اور شخص فضل ولی فاٹا سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں۔

فضل نے بتایا کہ وہ کرائے کے مکان کے متحمل نہیں لہذا یہاں رہائش پزیر ہیں۔'چونکہ ہم مٹی کے گھروں کے عادی ہیں لہذا ہمیں یہاں رہنے میں کوئی دشواری نہیں'۔

گرین ٹاؤن کے ایک غار میں رہنے والی عرفان علی نے بتایا کہ غاروں کی کھدائی تین ہزار روپے میٹر ہے۔

غاروں میں گھر تعمیر کرنے کیلئے ماہر مزردوں کی مدد لی جاتی ہے ۔ غار کو بہت احتیاط کے ساتھ منتخب کیا جاتا ہے کیونکہ پانی کا رساؤ غار کو منہدم کر سکتا ہے۔

عرفان نے بتایا کہ غاروں میں گھرعموماً 100 میٹر لمبےجبکہ 25 میٹر چوڑئے ہوتے ہیں۔

نکو نامی گاؤں کی ایک پہاڑی پر کالا خان کا خاندان 36 غار گھروں کا مالک ہے۔ کالا خان نے بتایا کہ ان کے غار گھر پاکستان بننے سے پہلے کے ہیں اور یہاں 500 افراد اور ایک سکول کی گنجائش ہے۔ تصاویر بشکریہ رپورٹر