بوتلوں کے پانی کے 8 برانڈز انسانوں کے لیے غیرمحفوظ
اسلام آباد: ایک سرکاری لیبارٹری میں مارکیٹ میں دستیاب بوتلوں کے پانی اور منرل واٹر کے آٹھ برانڈز کو انسانوں کے لیے ’’مکمل طور پر غیرمحفوظ‘‘ قرار دیا ہے، اس لیے کہ یہ ’’کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر آلودہ‘‘ ہے۔
پانی کے وسائل پر تحقیق کرنے والی پاکستانی کونسل (پی سی آر ڈبلیو آر) نے جنوری تا مارچ 2015ء کے لیے اپنی سہہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کے مقرر کردہ معیار کے تحت ایک موازنے کے تجزیاتی نتائج میں انکشاف ہوا کہ کیمیائی اور حیاتیاتی آلودگی کی وجہ سے آٹھ برانڈ غیرمحفوظ ہیں۔‘‘
پی سی آر ڈبلیو آر جو وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا ایک حصہ ہے، کے مطابق بوتلوں کے پانی کے برانڈز جو استعمال کے لیے غیرمحفوظ پائے گئے، ان میں الحیدر، نوبل، ڈراپ آئس، الثنا، ڈیز پیور، ایفرٹ، اکوا سیف اور بٹ شامل ہیں۔
اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، سیالکوٹ، کراچی، ٹنڈوجام اور کوئٹہ سمیت ملک کے سات شہروں کی مقامی مارکیٹوں سے پی سی آر ڈبلیو آر نے تجارتی طور پر دستیاب بوتلوں کے پانی کے برانڈز کے 71 نمونے اکھٹا کیے تھے۔
اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ الثناء، اکوا سیف اور ڈیز پیور کے تین غیر محفوظ برانڈز میں سنکھیا کی سطح نسبتاً زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ پانی میں سنکھیا کی زیادہ مقدار جلد کے امراض، ذیابیطس، گردے کی بیماریاں، ہائی بلڈپریشر، دل کے امراض، پیدائشی نقائص، سیاہ پاؤں کی بیماری اور کینسر کی مختلف اقسام کا سبب بن سکتی ہے۔
دیگر تین برانڈز ڈراپ آئس، ایفرٹ اور بٹ کو حیاتیاتی آلودگیوں کی وجہ سے غیرمحفوظ پایا گیا، جو کالرہ، ڈائریا، پیچش، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ نوبل، ڈیز پیور، اکوا سیف میں سوڈیم کی زیادہ مقدار غیرمعمولی طور پر شامل تھی، الحیدر برانڈ میں پوٹاشیم کی سطح خطرناک حد تک زیادہ پائی گئی۔
پی سی آر ڈبلیو آر نے کوالٹی کنٹرول اور نگرانی کے قومی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں، جو بوتلوں میں آلودہ پانی عوام کو فراہم کرکے عوام کی صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
بوتلوں کے پانی کی نگرانی اور میعار کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے پی سی آر ڈبلیو آر کو بوتلوں کے پانی اور منرل واٹر کی نگرانی اور سہہ ماہی بنیاد پر اس کے نتائج عوام کی آگاہی کے لیے شایع کرنے کی ذمہ داری تفویض کی ہے۔
بوتلوں کے پانی کے معیار کی نگرانی کا کام وفاقی کابینہ کی ہدایات پر کیا جارہا ہے۔
اس جانچ کے لیے نیشنل واٹر کوالٹی لیبارٹری اور پی سی آر ڈبلیو آر کی علاقائی اور ضلعی لیبارٹریوں کے عملے کے سینئر اراکین نے اکھٹے کیے تھے۔
رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ ’’ہر ایک برانڈز کی چار چار بوتلوں کا ایک سیٹ اکھٹا کرکے موقع پر ہی اس کو مہربند کردیا گیا تھا۔ بوتلوں کے پانی کے لیے پی سی آر ڈبلیو آر کے درجہ بندی کے نظام کے مطابق تمام برانڈز کے لیے شناختی کوڈز مختص کردیے گئے تھے۔‘‘
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 34 برانڈز مارکیٹ میں مسلسل موجود تھے، اور 2014ء کی آخری سہ ماہی میں تجزیہ کیے گئے 42 برانڈز مارکیٹ سے غائب تھے، جبکہ 37 نئے برانڈز یا تبدیل شدہ برانڈز کی اقسام مارکیٹ میں دستیاب تھیں۔
انسانی فضلے، صنعتوں سے آنے والی کیمیائی آلودگی اور زراعت کی وجہ سے پینے کے پانی کا میعار مسلسل گررہا ہے۔
آلودگی کی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کا کہنا ہے کہ نلوں میں آنے والا پانی بھی آلودہ ہورہا ہے، اس لیے کہ پینے کے پانی کی لائنیں سیوریج لائنوں یا سیوریج کی کھلی نالیوں سے انتہائی قریب ہیں، جو پانی سے پیدا ہونے والی کئی بیماریوں کا سبب ہیں۔
یہ بھی علم میں آیا ہے کہ پاکستان میں 45 فیصد نومولود بچوں کی اموات کی وجہ ڈائریا ہے، اور مجموعی طور پر تقریباً 60 فیصد انفیکشن پانی کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمام امراض میں پچیس سے تیس فیصد معدے اور آنتوں سے متعلق ہیں۔
پینے کے پانی کے ناقص معیار کی وجہ سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد بوتلوں کا پانی خریدنے پر مجبور ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ مارکیٹ وسیع ہوتی جارہی ہے، اور پچھلے چند سالوں کے دوران بوتلوں کا پانی تیار کرنے والوں کی ملک میں مشروم گروتھ دیکھی گئی ہے۔ تاہم بہت سی منرل واٹر کمپنیاں آلودہ پانی فروخت کرتی پائی گئی ہیں۔