نصف ایمان، صرف اپنے گھر تک؟
میں دکان سے سودا لے کر ابھی چند ہی قدم چلی تھی کہ اچانک پلاسٹک کی ایک تھیلی اوپر سے میرے سامنے آ کر گری اور پھٹ گئی۔ تھیلی میں بھرا گیلا کچرا کچھ اس طرح فٹ پاتھ پر پھیلا کہ مجھے بے اختیار چند قدم پیچھے ہٹ کر خود کو اس گندگی سے بچانا پڑا۔ یہ جاننے کے لیے کہ یہ تھیلی کہاں سے آئی، میں نے گردن اٹھا کر اوپر وہ مقام کھوجنے کی کوشش کی مگر فلیٹوں کی بالکونیوں اور کھڑکیوں سے کسی کا پتہ ملنا ناممکن تھا۔
”یہ تو روز ہوتا ہے باجی! لوگ گھروں میں کچرے کا ڈبہ رکھنے کے بجائے یونہی کھڑکی سے باہر تھیلیاں پھینک دیتے ہیں۔“ مجھے حیران و پریشان دیکھ کر دکاندار طنزیہ مسکرایا۔ ”یہ حال ہے تعلیم یافتہ لوگوں کا“ میں بڑبڑائی اور آگے بڑھ گئی۔ ”صرف ڈگریاں اور پیسہ ہے باجی! شعور نہیں!“ دکاندار کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
کہنے کو تو یہ شہر کے ایک متوّسط طبقے کا رہائشی علاقہ ہے جہاں مکانوں کے علاوہ فلیٹس بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ ہر گھر میں تعلیم یافتہ لوگ بستے ہیں اور آمدنی بھی اگر بہت وافر نہیں، تو ضروریات اور آسائشاتِ زندگی کے حوالے سے یقیناً بہت مناسب ہو گی جس کی عکاّسی فلیٹوں کی کھڑکیوں میں لگے اسپلٹ اے سی کے یونٹس کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ آمدنی کا ہے، تعلیم کی کمی کا، یا پھر محض اپنی ذمہ داریوں اور شہری کردار سے نظر چرانے کا؟ گھروں سے باہر بالکونیوں سے کچرا پھینک دینا، اپنے گھرمیں جھاڑو دے کر کچرا باہر گلی کے کونے پر کر دینا، عید پر اپنے گھر میں قربانی کے بعد آلائشیں باہر کونے میں کھلی چھوڑ دینا، یہ تو صرف مثالیں ہیں ہماری اس ذہنیت کی جو ہمیں ہماری شہری ذمہ داریوں اور کردار کو ادا نہیں کرنے دیتی۔
ذرا سڑک پر نکل جائیے! مجال ہے کہ پیدل چلتے راہگیر کو سڑک پار کرنے کے لیے کوئی گاڑی راستہ دے دے۔ یکطرفہ ٹریفک کی سڑکوں پر بھی اکثر اوقات گاڑیاں اس دھڑّلے سے غلط سمت میں رواں دواں ہوتی ہیں کہ اکثر صحیح سمت چلنے کے باوجود آپ کو انہیں راستہ دینا پرتا ہے وگرنہ ٹریفک جام کرنے کی شرمندگی بھی آپ ہی کے حصّے میں آئے گی۔
سگنلز کی خلاف ورزی کر کے ہم خود ٹریفک جام کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو کر پہلے تو ٹریفک پولیس کو عدم کارکردگی پر القاب سے نوازتے ہیں اور پھر ایک دوسرے پر آنکھیں نکال کر اور آستینیں چڑھا کر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
کبھی کہیں لائن میں لگنا پڑ جائے تو ہم سے زیادہ پریشان کوئی نہیں ہوتا۔ ہر ایک لائن توڑنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح لائن میں لگے بغیر ہی کام ہو جائے۔ اکثر اوقات اس معاملے پر لوگوں میں گالم گلوچ بھی دیکھنے میں آ جاتی ہے۔
الگ الگ دیکھا جائے تو ایسی کئی مثالیں اور بے شمار واقعات ہم سب کی یادداشت میں یقیناً محفوظ ہوں گے لیکن اگر بحیثیتِ مجموعی جائزہ لیا جائے تو معاملہ فقط اتنا ہے کہ ہم سب اس ملک کے شہری ہوتے ہوئے بھی اپنی شہری ذمہ داریاں نبھانے پر توّجہ نہیں دے رہے۔
ہر سو اڑتی ہوئی پلاسٹک کی تھیلیاں، ہر گلی محلے میں کونوں پر لگے کچرے کے ڈھیر، ٹینک بھر جانے کے سبب گھروں سے باہر بہتا ہوا پانی، غلط سمت سے آنے اور ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے والی گاڑیاں، مسلسل بجتے ہوئے ہارن، پبلک ٹوائلٹس کی بدترین حالتِ زار، لائن میں لگنے پر دھکم پیل اور عدم برداشت، بڑوں کے ادب اور تہذیب میں کمی، یہ تمام چیزیں اسی بات کی عکاّس ہیں کہ ڈگری کے اعتبار سے شاید ہم تعلیم یافتہ و اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ کہلائیں، شعور اور آگہی کے پیمانے پر ہمارا شمار صرف جہلاء میں ہوتا ہے۔
والدین اپنے بچوّں کو 500 روپے کا برگر اور 100 روپے کی آئس کریم تو دلاتے ہیں کہ بچّہ اپنے دوستوں میں بیٹھ کر اس کا فخریہ اعلان کر سکے، لیکن اس برگر کا خالی ڈبہ اور آئس کریم کا خالی ریپر سڑک پر پھینکنے یا گاڑی کی کھلی کھڑکی سے باہر اڑانے پر اسے نہیں روکتے۔
یہ ہم ہی ہیں جو سنگاپور، ملائشیا اور کینیڈا جا کر دو دو گھنٹے کچرے کی تھیلی ہاتھ میں لیے گھومتے ہیں کہ کچرا دان نظرآئے گا تو پھینک دیں گے۔ لندن، دبئی اور تھائی لینڈ کی سڑکوں پر گھنٹوں بغیر ہارن بجائے اسی لین میں اپنی گاڑی نکالنے کا انتظار کرتے ہیں کہ بے وجہ ہارن بجانے اور لین بدلنے پر پابندی ہے۔ پبلک ٹوائلٹس میں نل احتیاط سے کھولتے ہیں کہ بے ضرورت پانی بہانے کو نہ صرف معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ لوگ اس پر ٹوک بھی دیتے ہیں۔ تو یہاں یہ دوہرا روّیہ کیوں؟
یہ کہہ دینا کہ صفائی کا انتظام رکھنا، ٹریفک قوانین کی پاسداری کروانا، اور لوگوں کو لائن میں لگنے پر آمادہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ یا پھر یہ کہنا کہ سبھی ایسا کرتے ہیں، میرے نہ کرنے سے کیا ہو گا؟ درحقیقت اپنی ذمہ داریوں سے منہ چھپانا ہے۔
ہر بات میں مذہب کی دہائی دینے والے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ”صفائی نصف ایمان ہے۔“ اور یہ صفائی محض گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں۔ صبر و برداشت کا درس دینے والے ہم سڑک پر کسی گاڑی یا راہ گیر کو راستہ دیتے ہوئے یا لائن میں پیچھے ہو جانے پر لڑتے ہوئے یہی سبق کیوں بھول جاتے ہیں؟
آج ہم اپنی نئی نسل کے بارے میں یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان میں برداشت، رواداری، تحمل اور شعور کی کمی ہے، مگر اپنی نئی نسل میں یہ چیزیں منتقل کرنے والے تو ہم ہی ہیں کیوں کہ آج بچے وہی کرتے ہیں جو وہ ہمیں کرتے دیکھتے ہیں۔ اگر آج اس جانب توجہ نہ دی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا کل آپس میں ہمہ وقت دست و گریباں نظر آئے اور ہم کچھ نہ کر سکیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم میں نہ تعلیم کی کمی ہے نہ وسائل کی۔ کمی ہے تو صرف سمجھ اور شعور کی جو ہمیں ہماری اس ذمہ داری کو سمجھنے میں مدد دے۔ آج اگر ہم میں سے ہر ایک صرف یہ سوچ لے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے گا تو یقین جانیے کہ حالات کے سدھرنے میں وقت نہیں لگے گا۔ صرف اپنی ذمہ داری پہچان لیجیے، راستہ خودبخود آسان ہو جائے گا۔
شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔